1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزارہا کشمیریوں پر بھارتی فوجی تشدد، ’اقوام متحدہ تفتیش کرے‘

20 مئی 2019

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی دو سرکردہ تنظیموں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارتی دستوں کی طرف سے گزشتہ تین عشروں کے دوران ہزارہا کشمیری شہریوں پر کیے گئے تشدد کی باقاعدہ تفتیش کرائے۔

https://p.dw.com/p/3Ilhu
سری نگر میں گشت کرتے بھارتی پیراملٹری فورس کے مسلح ارکانتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے پیر بیس مئی کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ریاست میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ان تنظیموں میں سے ایک تو (بھارت کے زیر انتظام) جموں کشمیر میں سول سوسائٹی کا اتحاد نامی تنظیم ہے جبکہ دوسری وہ ایسوسی ایشن ہے، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان جموں کشمیر کے منقسم خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں اچانک لاپتہ ہو جانے والے کشمیریوں کے والدین نے قائم کر رکھی ہے۔

تشدد کی غیر اعلانیہ پالیسی

ان تنظیموں نے آج پیر بیس مئی کو جاری کردہ اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا کہ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں نئی دہلی کے مسلح دستے کئی برسوں سے ایک باقاعدہ لیکن غیر اعلانیہ پالیسی کے تحت کشمیریوں پر اس لیے تشدد کر رہے ہیں کہ یوں وہاں ’اپنے مکمل کنٹرول کو یقینی بنا سکیں‘۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بھارتی دستے کشمیر میں ہزارہا سویلین باشندوں کو تشدد کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان شہریوں پر اتنی بری طرح تشدد کیا گیا کہ ایسے 432 مصدقہ واقعات کی باقاعدہ چھان بین کے دوران کم از کم 40 کشمیریوں کی ہلاکت کی تصدیق بھی ہو گئی۔

Indien, alte Frau
سری نگر میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک ایک برزگ کشمیری خاتونتصویر: AFP/Getty Images/T. Mustafa

اس رپورٹ میں ان دونوں تنظیموں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں پر کیے جانے والے مظالم کی باقاعدہ چھان بین کرائے۔ دوسری طرف اے ایف پی نے جب اس رپورٹ پر سرکاری ردعمل کے لیے بھارتی حکومت سے رابطہ کیا، تو کسی بھی تبصرے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ پہلے ملکی حکام اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔

عوامی احتجاجی تحریک کے تیس سال

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں سے کشمیر میں ان دنوں اس عوامی احتجاجی تحریک کے آغاز کی 30 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، جو 1989ء میں شروع ہوئی تھی۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف اس احتجاجی تحریک میں اب تک ہزارہا افراد مارے جا چکے ہیں اور ان ہلاک شدگان میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔

اس رپورٹ میں، جس کا عنوان ’تشدد: بھارت کے زیر انتظام جموں اور کشمیر پر کنٹرول کے لیے بھارتی ریاست کا ہتھیار‘ ہے، کہا گیا ہے کہ نئی دہلی کے مسلح دستے ریاست میں بھارتی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کے خاتمے کے لیے تشدد کو بڑے منظم انداز میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

Indien allgemeine Bilder von Jammu Kaschmir
سری نگر میں ڈیوٹی پر موجود ایک بھارتی سکیورٹی اہلکار اور قریب سے گزرتی ایک مقامی اسکول کی طالباتتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

بجلی کے جھٹکے اور مصدقہ ہلاکتیں

رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی ان دونوں تنظیموں نے جن 432 واقعات میں کشمیریوں پر فوجی تشدد کی چھان بین کی اور جن میں سے کم از کم 40 زخمیوں کی موت کی تصدیق بھی ہو گئی تھی، ان پر طرح طرح کے طریقوں سے تشدد کیا گیا تھا۔

تشدد کے ان طریقوں میں واٹر بورڈنگ، لوہے کی سلاخوں اور چمڑے کی بیلٹوں سے جسمانی طور پر پیٹنا اور جسم کے نازک حصوں کو بجلی کے جھٹکے دینا بھی شامل تھے۔

بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ان تفتیش کاروں کو جموں کشمیر کی منقسم ریاست کے اپنے زیر انتظام حصے میں جانے کی اجازت دینے سے انکاری ہے، جو وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسلح دستوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات کی چھان بین کرنا چاہتے ہیں۔

م م / ک م / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں