1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

27 دسمبر 2019

اردو زبان کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ خان غالب کی 222 ویں سالگرہ کی مناسبت سے آج بروز جمعہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/179dH
تصویر: Public Domain

مرزا اسد اللہ خان غالب ستائیس دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ دلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کے ابتدائی مضامین میں مہمل گوئی اور فارسی زبان و تراکیب کا عنصر بہت نمایاں رہا۔

شمارِ سجہ ، مرغوبِ بت ِ مشکل پسند آیا

تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل پسند آیا


ہوائے سیرِ گُل آئینۂ بے مہریِ قاتل

کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا

یہ غالب کی شاعری میں شروع کا وہ منفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔ دوسری طرف غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

تاہم غالب نے بعد ازاں اپنی زبان میں کچھ تبدیلی ضرور پیدا کی۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی  ہے  پیرہن  ہر  پیکرِ تصویر  کا

کاوکاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے  حلقہ  مری  زنجیر کا

Islamisches Fest: Eid al-Adha in der Moschee Jama Masjid in Indien
غالب نے اپنے اشعار میں سنجیدہ مذہبی موضوعات کو بھی طنز کا نشانہ بنایاتصویر: AP

ناقدین کے بقول غالب کی یہ زبان دانی بھی اس وقت کے شعرا کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ تاہم غالب خود کو اس تنقید سے ماوراء سمجھتے رہے۔ ’’گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘، غالب نے یہ  کہہ کر ناقدین کو خاموش کرانے کی کوشش کی مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی روش بدلی۔

یہ امر اہم ہےکہ دلی کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات نے غالب کی شاعری میں ایک جدت پیدا کی۔ میر تقی میر، ذوق اور سودا کے طرز کلام کے مقابلے میں ایک نئے انداز پر داد وصول کرنے پر غالب کو کافی محنت کرنا پڑی۔

ان کی شاعری کا رنگ اگرچہ نرالا ہی تھا لیکن باذوق افراد ان کی نثر سے بھی ویسی ہی عقیدت رکھتے ہیں۔ عبدالرحمان بجنوری نے کہا تھا، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ’وید مقدس‘ اور ’دیوان غالب‘۔‘‘

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات  یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا، مہ، جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔ انہوں نے متعدد مقامات پر انتہائی سنجیدہ مضامین کو بڑے بے تکلف انداز میں چھیڑا۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ غالب نے اس عہد کے سنجیدہ موضوعات پر طنزیہ انداز میں سخن اندازی بھی کی تھی۔

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

 

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو

روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

 

مسجد کے زیرسایہ اک گھر بنا لیا ہے

یہ بندہء کمینہ ہمسایہء خدا ہے

 

عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

کئی مقامات پر غالب کے اشعار اپنے اندر متعدد معنی لیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر  ان کے کسی ایک ہی شعر کو کئی کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم پھر بھی یہ کہنا مشکل ہو گا کہ شاید قاری ان مضامین تک پہنچ گیا، جہاں غالب اپنے قاری کو لے جانا چاہتے تھے۔