1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں 'سوپر ممی سینڈروم‘ سے نجات دلاؤ

27 مئی 2022

اس مدرز ڈے پر اپنے خاندان کی خواتین کے لیے کچھ منفرد سوچیں اور انہیں ’سوپر ممی سینڈروم‘ سے نجات دلائیں۔

https://p.dw.com/p/4Bw4y
DW Urdu Blogger Manha Haider
تصویر: Privat

مئی کا مہینہ کیلنڈر میں نمودار ہوتے ساتھ ہی سکول، کالجز،گھروں اورسوشل میڈیا پر مدرز ڈے کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں، بہت سے برانڈز ماؤں کے عالمی دن پر رنگا رنگ سیل کا اعلان کرتے ہیں تاکہ بچے اپنی  پاکٹ منی سے ماؤں کو تحائف دے سکیں۔ گھروں کے کونے کھدروں میں بچے خفیہ قسم کی پلاننگز میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ مدرذ ڈے پر ماں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ ان کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں اور کسی طرح ہر ماں کو وہ سرپرائز کے نام پر وہ خوشی میسر آسکے جو اکثر بچے سوچ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر کئی اشتہاری کمپنیاں ماؤں کے عالمی دن پر خصوصی  اشتہاری کمپئینز لانچ کرتی ہیں۔ 64 فیصد اشتہاری کمپنیز فیملی لائف اور ماں بچوں کے تعلق کو بنیاد بنا کر ایسے اشتہار بناتی ہیں۔ اب ٹی وی اور اشتہارات میں جو مائیں بطور رول ماڈل دکھائی جاتی ہیں کیا وہ تصور حقیقت سے قریب ہیں؟ صبح سویرے نک سک سے سجی سنوری ماں، جس کے کپڑے استری ہوتے ہیں اور بال سٹریٹ، وہ مسکرا کر اور کھیلتے ہوئے بچوں کو ناشتہ کرواتی ہے۔ شوہر کو دروازے تک چھوڑ کر آتی ہے۔ سسرال والوں کی خدمت کرتی ہے۔ اگر ورکنگ وومن ہے تو ماتھے پر شکن لائے بغیر نہایت مستعدی سے آفس کے تمام کام نپٹاتی ہے۔ گاڑی خود چلا کر گھر آتی ہے۔  بچوں کا ہوم ورک کرواتی ہے۔ کھانا بناتی ہے، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی نظر آتی ہے اور پھر بھی ترو تازہ صورت لیے مسکرا رہی ہوتی ہے۔ ان اشتہاروں میں ایک سپر وومن کا خاکہ دکھایا جاتا ہے جو تن  تنہا ہر محاذ فتح کرتی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔  اگر واقعی ایک ورکنگ وومن اس طرح کی کامیاب زندگی کی علامت ہے تو اس کی کامیابی کے پیچھے ایک مکمل ٹیم موجود ہوتی ہے۔ ساس، شوہر، نندیں، مائیں اور خاندان کے دیگر افراد جو بچوں یا کچن کے معاملات میں اس کو ان ذمہ داریوں سے آزاد رکھ کر اس کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ تاہم ایسی مثالیں نایاب ہیں۔ ہمارے ہاں تصور ہے کہ شادی کے بعد شوہر، بچے، سسرال، رشتے دار سب بہو کی ذمہ داری ہیں پھر چاہے وہ نوکری کرتی ہو یا ایک ہاؤس وائف ہو۔ اس کا تمام معاملات میں پرفیکٹ ہونا لازم  ہے جو ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ بنا کسی کی مدد کے یہ تمام محاذ سر کرے۔ یہ والی توقعات سوپر ممی سینڈروم کو جنم دیتی ہیں جس میں ایک  بیاہتا، بچوں والی عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بنا کسی کی مدد کے اپنی ذات کو منوائے گی۔ کچن میں گول روٹی، بچوں کی تعلیم، مہمانوں کی تواضع، فیشن ٹریندز پر معلومات اور شوہر کی دلربا ہونے کی تمام ذمہ داریاں دن کے چوبیس گھنٹوں میں ایک چیک لسٹ کی طرح اس کے سر پر سوار رہتے ہیں۔

سوپر ممی سینڈروم ایک خوف ہے جس میں عورت یہ سمجھنے لگتی ہے کہ اگر اس نے کسی سے مدد مانگ لی تو اس کی وقعت گھٹ جائے گی۔ اس کی تربیت پہ سوال اٹھیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ وہ شادی اور بچوں کی ذمہ داری کی اہل نہیں ہے۔ ایک بین الاقوامی یورنیورسٹی کے سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ کے ایک سروے کے مطابق سوپر ممی سینڈروم کا شکار خواتین ڈپریشن کی  اے، بی، سی، ڈی، ایف علامات ظاہر کرنا شروع کردیتی ہیں۔ اے سے اینگر یا غصہ، چھوٹی اور معمولی باتوں پہ بھڑک جانا یا ضرورت سے زیادہ ری ایکٹ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ  وہ چاہتی ہیں کہ بنا کہے ان  پر موجود ان ذمہ داریوں کا احساس کیا جائے۔ پھر اگلا مرحلہ بلیم یا الزام کا ہے جہاں وہ اکثر مہمانوں یا ان لوگوں کے بارے میں نادانستہ طور پہ شکایات کرنا شروع کر دیتی ہیں جو ایک ہی گھر میں رہ کر برابری کے حقوق تو حاصل کرتے ہیں لیکن ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے۔ تیسری علامت کرٹیسیزم یا تنقید کا مرحلہ ہے  جس میں  شکوے شکایات کیساتھ بے جا تنقید کی عادت بھی پختہ ہوجاتی ہے۔ چوتھی علامت ڈپریشن کی ہے جس میں ان معاملات پر بھی ضرورت سے زیادہ سوچا جاتا ہے جو کہ زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔ پانچویں مرحلے میں ایگزاٹیشن یا مسلسل تھکاوٹ کی شکایات اور علامات ہیں جو کسی خاتون میں سے شگفتگی کا عنصر ختم کرکے انہیں  نقاہت زدہ مریض بنا دیتے ہیں۔ آخری علامت  فرسٹریشن یا مایوسی جیسے جذبات ہیں جو مسلسل خاتون خانہ کی شخصیت کا احاطہ کئے رہتے ہیں اور پھر ہم جیسے غیر حساس لوگ یہ طنز اور شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ شادی سے پہلے یا شروع کے دنوں میں تو بہت خوش اخلاق تھی اور اب ہر وقت جلی کٹی اور غصے میں بھری رہتی ہے یا بیماری کے بہانے کرتی ہے۔  ہمیں اپنے ارد گرد اشتہارات والی سوپر وومن دکھائی دے یا نہ دے پر اس طرح کی مرجھائی ہوئی منفی جذبات سے لبریز عورتیں ضرور دکھائی دیں گی۔ ہم کوئی مشین بھی خرید کر لائیں تو اسکی استطاعت سے زیادہ اس پر وزن نہیں ڈالتے، یہی کلیہ کام کرنے والے انسانوں پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔  چاہے وہ مرد ہویا عورت، تھوڑی سی مدد، حوصلہ افزائی اور توجہ  اس کی شخصیت میں نکھار لا سکتا ہے بلکہ انہیں ان ذہنی الجھنوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ ہم ایک پودا بھی گھر میں رکھیں تو اس کو تازہ دم رکھنے کیلئے اس کا خیال رکھتے ہیں تو جو عورت آپ کی نسل کی اکائی ہو  اس کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ جن گھروں کے بزرگ اس فارمولے سے واقف ہوں ان گھروں کی بہو بیٹیاں شادی کے عرصے بعد بھی اپنی شخصیت کی شگفتگی اور نکھار نہیں کھوتیں۔ سوپر ممی سینڈروم ایک نفسیاتی بیماری ہے اور اس کا علاج صرف اردگرد کے لوگوں کے مثبت رویے میں پنہاں ہے۔کوشش کیجیے کہ اگلے مدرز ڈے تک اپ اپنے گھر میں موجود تھکی اور مایوس ماں کو اسی ہنستی اور مسکراتی ماں میں تبدیل کردیں کیونکہ ایک ماں کیلئے شائد اس سے بہتر تحفہ اور کوئی نہ ہو۔