1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیش ٹیگ می ٹو: ’چینی راہب نے راہباؤں کا جنسی استحصال کیا‘

2 اگست 2018

چین میں بدھ مت  کی ایک خانقاہ کی انتظامیہ نے ’ہیش ٹیگ می ٹو‘ کے تحت اپنے صدر راہب اور کمیونسٹ جماعت کے رکن پر عائد اس الزام کو مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ راہب نے متعدد راہباؤں کا جنسی استحصال کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/32Uql
China Mönch Xuecheng
تصویر: picture-alliance/dpa/Imaginechina/Z. Qingmin

 چین میں جنسی استحصال کے خلاف آگہی کی مہم کے نتیجے میں سامنے آنے والے الزامات میں یہ سب سے ہائی پروفائل کیس بن گیا ہے۔ بدھ مت کے پیرو کار ماسٹر ژوئےچنگ اور ان کی خانقاہ پر جنسی استحصال کے یہ الزامات گزشتہ ہفتے دو سابقہ بھکشوؤں کی جانب سے عائد کیے گئے۔ ان راہبوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بدھ خانقاہ اس وقت معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ژوئے چنگ پر کم سے کم چھ راہباؤں کو نا مناسب ٹیکسٹ میسج بھیجنے اور اپنے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے مجبور کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

سابق بدھ بھکشوؤں نے آن لائن شائع ہونے والی اپنی طویل رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر ژوئے چنگ کے مطالبات کے سامنے چار راہباؤں نے ہار مان لی جبکہ ژوئے چنگ نے ان خواتین کے ذہنوں کو یہ کہہ کر بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی کہ جنسی تعلق قائم کرنا اُن کی بدھ مت کی تعلیم کا ایک حصہ ہے۔

چینی پولیس اور مذہبی حکام کی جانب سے ابھی تک اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم ایک سرکاری چینی اخبار کے مطابق حکام نے ژوئے چنگ کو تفتیش کے لیے بلایا تھا لیکن بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا۔ 

 

Peking Longquan Kloster Tempel
بیجنگ میں بدھ مت کی خانقاہتصویر: picture alliance/dpa

آگہی سے متعلق سوشل میڈیا پر جاری مہم ’ہیش ٹیگ می ٹو‘ سے چین کا سوشل میڈیا بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ چین میں اس مہم کا ہدف نمایاں سرگرم کارکنان، دانشور اور ٹی وی کی معروف شخصیات ہیں۔

چین کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنسی استحصال جیسے موضوعات کو روایتی طور پر زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ لیکن اب یہاں بھی یہ روایت بدل رہی ہے اور چین کی نوجوان نسل ’ہیش ٹیگ می ٹو‘ پر کھل کر بات کر رہی ہے۔

دوسری جانب چین میں سوشل میڈیا کے لاکھوں صارفین بھی اسکینڈلز، ناچاقیوں اور جھگڑوں کی خبروں پر فوری اور بھر پور رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

 نامناسب جنسی رویوں کے حوالے سے الزامات سے اس آن لائن بحث کا بھی آغاز ہوا کہ آخر یہ رویے تشکیل کیسے پاتے ہیں۔

اس حوالے سے حال ہی میں قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن کی جانب سے عائد کیا جانے والا الزام کو سوشل میڈیا پر نمایاں طور سے زیر بحث لایا گیا تھا۔

Symbolbild #MeToo
تصویر: picture alliance/dpa/B. Pedersen

ستائیس سالہ اس خاتون نے ایک تجربہ کار چینی صحافی اور آن لائن سیاسی تبصرہ نگار ژانگ وین پر الزام عائد کیا تھا کہ وین نے مئی کے مہینے میں ایک دعوت کے بعد اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

اس کے بعد چھ مزید خواتین نے بھی وین پر جنسی ہراسیت کا الزام عائد کیا۔

تاہم ژانگ وین نے ایک بیان میں ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الزام لگانے والی خاتون سے ان کا تعلق باہمی رضامندی پر قائم ہوا تھا۔

ژانگ کے ساتھ کام کرنے والی ایک ممتاز صحافی خاتون ژیانگ فانگ ژو نے بھی وین پر ایک ڈنر کے دوران انہیں لبھانے کا الزام لگایا تھا۔

چینی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ملک کی ممتاز شخصیات پر جنسی استحصال کے الزامات ہیں، جن میں سے کچھ کو تو سنسر شپ پالیسی کے تحت فلٹر کر لیا جاتا ہے لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر شائع کی گئی ایسی تمام پوسٹوں کو چھپانا اس کے لیے ممکن نہیں۔

ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی