1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ سے افغان مہاجر بچوں کی ملک بدری روکی جائے، سیو دی چلڈرن

16 اکتوبر 2018

بچوں کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیم ’سیو دی چلڈرن’ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق یورپی ملکوں سے افغانستان واپس بھیجے جانے والے افغان پناہ گزین بچوں کی تین چوتھائی تعداد خوف اور تشدد کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/36dSt
Afghanistan Flüchtlingskinder
تصویر: Getty Images/AFP/H. Hashimi

جرمن دارالحکومت برلن میں بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک سے افغانستان واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن بچے تعلیم سے محروم رہنے کے ساتھ ساتھ خوف اور تشدد کا شکار بھی ہیں۔ افغان بچوں پر رپورٹ مرتب کرنے والی اور بچوں کے حقوق کی ماہر ڈاکٹر مائیکے ریباؤ کا کہنا ہے کہ ’ملک بدر کیے جانے یا پھر رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغان پناہ گزین بچوں کو شدت پسند گروہوں کی جانب سے بھرتی کیے جانے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔‘

PK Save the Children
تصویر: DW/I. Aftab

دنیا بھر میں بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق 2017ء میں یورپی یونین کے رکن ممالک سے 4,260 افغان تارکین وطن کو واپس ان کے ملک بھیجا گیا۔ تاہم ان افراد میں بچوں کی تعداد واضح نہیں۔ جرمنی سمیت یورپ کے دیگر ملکوں سے واپس افغانستان جانے والے 57 بچوں اور ان کے والدین نے سیو دا چلڈرن کو بتایا ہے کہ افغانستان میں وہ خود کو ’اجنبی‘ محسوس کرتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر مائیکے ریباؤ نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان واپس بھیجے جانے والوں کی حفاظت اور ان کے ليے بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جائے کیوں کہ ان بچوں کی جنگ زدہ علاقے میں واپسی، بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

سن 2015 سے سن 2016 کے دوران تقریباً چھ لاکھ افغان پناہ گزینوں کی جانب سے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستيں جمع کرائی گئيں جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد نماياں کمی کے ساتھ تقریبا ساڑھے تينتاليس ہزار رہی۔ گزشتہ تین برسوں میں رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

Meike Riebau
تصویر: Save the Children

سیو دی چلڈرن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی سے افغان مہاجر بچوں کو ملک بدر کیے جانے کے بجائے ان کے والدین کی مرضی سے رضاکارانہ طور پر واپسی کے ايک منصوبے ’اسٹارٹ ہلفے پلس’ کے تحت وطن واپس بھیجا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے مہاجرین کی مالی مدد کی جاتی ہے، جو فی فرد 1200 یورو ہے۔ یہ رقم وطن واپس پہنچنے کے بعد قسطوں میں ادا کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مائیکے ریباؤ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس رپورٹ کی تفتیش کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ جو نو عمر بچے جرمنی سے رضاکارانہ طور پر واپس گئے ہیں، ان کے لیے دوسری قسط وصول نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتايا، ’’لہٰذا ہمیں نہیں معلوم کہ وہ بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔‘‘ مائیکے يہ بھی سمجھتی ہیں کہ جرمن حکومت کی ذمہ داری کابل ہوائی اڈے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کو بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا بھی برلن حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سیو دی چلڈرن ایک سو بیس ممالک میں بچوں کے ليے تعليم، طبی سہوليات اور تحفظ کی فراہمی کے ليے سرگرم ہے۔ يہ تنظيم بچوں پر تشدد اور ان کے استحصال کے خلاف تقریباً ايک سو سال سے کام کر رہی ہے۔