1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کو نئی جمہوری بنیادوں کی ضرورت، جرمن فلسفی ہابرماس

29 اپریل 2013

جرمنی کے یُرگن ہابرماس دور حاضر کے مشہور ترین فلسفیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بیلجیم کی Leuven یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یورپ کو نئی جمہوری بنیادوں کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/18Oum
تصویر: DW

بیلجیم کے شہر لوئیون کی کیتھولک یونیورسٹی کے سب سے بڑے ہال میں اِس لیجنڈ فلسفی کے خیالات کو سننے کے لیے پانچ سو سے زیادہ طلبہ موجود تھے۔ جن لوگوں کو ہال کے اندر بیٹھنے کے لیے ٹکٹ نہیں مل سکا تھا، وہ ہلکی ہلکی بارش میں یونیورسٹی کے باغ میں نصب ایک بڑی اسکرین پر ہابرماس کا لیکچر سنتے رہے۔

جب بالآخر 83 سالہ فلسفی اور سماجی ماہر اسٹیج پر آئے تو تمام نوجوان اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک ناقدانہ فکر کی حامل اس شخصیت کے لیے تالیاں بجاتے رہے، جسے دنیا بھر میں احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

ہال میں پانچ سو سے زائد طلباء کے ساتھ ساتھ یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے بھی موجود تھے
ہال میں پانچ سو سے زائد طلباء کے ساتھ ساتھ یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے بھی موجود تھےتصویر: DW

ہابرماس تقریباً ایک گھنٹے تک  ’جمہوریت، یک جہتی اور یورپی بحران‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے رہے۔ یورپ سے متعلق اس اہم ترین موضوع پر گزشتہ کئی برسوں میں یہ اُن کا کھلے عام پہلا لیکچر تھا۔ اِس لیکچر کو سننے کے لیے جمع حاضرین میں یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے بھی شامل تھے، جو ستائیس رکنی یورپی یونین کے سربراہانِ مملکت و حکومت کی سربراہ کانفرنسوں کی صدارت کرتے ہیں اور جو اُس ہراول دستے میں شامل ہیں، جو یورپی بحران پر قابو پانے کی کوششیں کر رہا ہے۔

’ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے‘

یُرگن ہابرماس نے بحران کی شکار معیشتوں کو بچانے کے لیے یورپی یونین کی موجودہ پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُنہوں نے کہا کہ یورپی یونین ایک ایسی ٹیکنوکریسی بن کر رہ گئی ہے، جو خود کو مالیاتی منڈیوں کی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں مصروف ہے جبکہ اُن کے خیال میں ضرورت ’قومی سرحدوں سے بالاتر‘ ایک ایسی جمہوریت کو رواج دینے کی ہے، جس میں آج کل کی قومی ریاستیں باقی تو رہیں تاہم اپنی اپنی حاکمیت اعلیٰ سے دستبردار ہو جائیں۔

ہابرماس نے کہا:’’اگر آپ کرنسی یونین کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے محض یہ اقدامات ہی کافی نہیں ہیں کہ آپ مختلف اقتصادی ڈھانچوں کی بناء پر فرداً فرداً مختلف مقروض ممالک کو قرضے فراہم کرتے رہیں تاکہ وہ اکیلے ہی اپنی مقابلہ بازی کی صلاحیت پھر سے حاصل کر لیں۔ یہ کافی نہیں ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا:’’اِس کی بجائے یک جہتی اور تعاون کی ایک ایسی صورت درکار ہے، جس کے پیچھے مشترکہ سیاسی مستقبل کے امکانات کارفرما ہوں۔‘‘ ہابرماس نے یورپی یونین میں جمہوری عمل کو رواج دینے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ یورپی کونسل کی، جس کے فان رومپوئے صدر ہیں، جمہوری نگرانی کی جانی چاہیے۔

کیتھولک یونیورسٹی کا حاضرین سے بھرا ہوا ہال، جہاں ہابرماس لیکچر دے رہے ہیں
کیتھولک یونیورسٹی کا حاضرین سے بھرا ہوا ہال، جہاں ہابرماس لیکچر دے رہے ہیںتصویر: DW

جرمن فلسفی نے کہا، اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ایک کنونشن کے ذریعے یورپی یونین کے معاہدوں کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ یونین میں تبدیلی کی کنجی جرمن حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ اپنی مضبوط معیشت اور سب سے زیادہ آبادی کے باعث یورپ میں قائدانہ کردار جرمنی کے حصے میں آتا ہے تاہم اُسے اکیلے ہی اقدامات کرنے کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے۔ ہابرماس کے مطابق نصب العین ایک ’جرمن یورپ‘ تشکیل دینا نہیں بلکہ ’یورپ میں جرمنی‘ کی تشکیل ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ یورو زون کو بچانے کے لیے کرنسی یونین کو درحقیقت ایک سیاسی یونین میں بدلا جانا چاہیے۔

’یورپی یونین پہلے ہی تبدیلی سے گزر رہی ہے‘

یورپی یونین کی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے نے یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ خود اُنہوں نے 1968ء میں فلسفے کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔ فان رومپوئے کے مطابق یہ وہ دور تھا، جب پروفیسر یُرگن ہابرماس فرینکفرٹ اَم مائن میں عمرانیات کے شعبے کے ایک قابل احترام اُستاد کے طور پر جانے مانے جاتے تھے:’’پروفیسر صاحب!  جب ہماری ایک دوسرے سے بات چیت ہوئی تو ہمارے درمیان تمام باتوں پر اتفاق رائے نہیں تھا۔ سیاستدانوں اور دانشوروں کے طور پر ہماری ذمے داریاں اور فرائض ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔‘‘ جواب میں یُرگن ہابرماس نے کہا، اُن کے لیے یہ بات قابل فہم ہے کہ یورپی کونسل کو دور رَس فیصلے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے:’’ظاہر ہے کوئی بھی اپنے اختیارات چھوڑنا  نہیں چاہتا لیکن اقتصادی حقائق تبدیلی پر مجبور کر دیں گے۔‘‘

B.Riegert/aa/ai