1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کے سب سے بڑے مسلم قبرستانوں میں سے ایک آئندہ ہالینڈ میں

2 فروری 2020

ہالینڈ میں آباد مسلمان اس یورپی ملک میں آئندہ ایک ایسا خصوصی قبرستان بنانے کی کوشش میں ہیں، جو یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ابدی آرام گاہوں میں سے ایک ہو گا۔ اس قبرستان میں مسلمانوں کی سترہ سو قبروں کے لیے جگہ ہو گی۔

https://p.dw.com/p/3X9mi
تصویر: DW

ڈچ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق یہ قبرستان ہالینڈ کے شہر گرونِنگن کے قریب زیُوڈلارن میں قائم کیا جائے گا اور اس کے لیے کوششیں 'بِیبِن‘ نامی ایک تنظیم کر رہی ہے۔ 'بِیبِن‘ ڈچ زبان میں ایسے الفاظ کا مخفف ہے، جن کا مطلب 'نیدرلینڈز میں مسلمانوں کا خصوصی قبرستان‘ بنتا ہے۔

'بِیبِن‘ (Bibin) کے صدر حامد امرینو کے مطابق ہالینڈ میں آباد مسلمانوں میں سے اب زیادہ سے زیادہ کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ انتقال کے بعد ان کی تدفین ان کے آبائی ممالک کے بجائے اسی یورپی ملک میں کی جائے۔ انہوں نے کہا، ''یہ رجحان اس لیے بھی زور پکڑ رہا ہے کہ ڈچ مسلمانوں میں یہ سوچ بہت زیادہ ترویج پا رہی ہے کہ ہالینڈ ہی ان کا وطن ہے اور ان کا مرنا اور جینا اسی ملک میں ہے۔‘‘

اس بارے میں ڈچ قبرستانوں کے انتظامی اداروں کی تنظیم کے ترجمان وِم وان مِڈوُوڈ نے بھی تصدیق کی کہ نیدرلینڈز میں مسلمانوں کے لیے تدفین کی جگہوں میں اضافے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ''ڈچ معاشرے میں مسلمانوں کی ایک پوری نسل ایسی ہے، جو یہیں پیدا ہوئی اور جو خود کو ہر حوالے سے ڈچ محسوس کرتی ہے۔ ایسے شہریوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انتقال کے بعد ان کی تدفین اسی ملک میں کی جائے۔‘‘

Berlin Islamischer Friedhof Columbiadamm
جرمن دارالحکومت برلن میں مسلمانوں کا ایک قبرستانتصویر: picture-alliance/dpa/R. Schlesinger

ہالینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ

خبر رساں ادارے کے این اے نے بتایا ہے کہ 'بِیبِن‘ کے مطابق اس خصوصی قبرستان کی تعمیر کے لیے چار لاکھ یورو سے زائد کی رقوم درکار ہوں گی۔ اب تک ان رقوم کا نصف کے قریب حصہ جمع کیا جا چکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم اپنے اس منصوبے کے لیے بیرون ملک سے کوئی عطیات قبول نہیں کرتی بلکہ تمام تر وسائل مقامی مسلمانوں کی طرف سے مالی عطیات کی صورت میں جمع کیے جا رہے ہیں۔

نیدرلینڈز میں مسلمانوں کی کُل آبادی تقریباﹰ ساڑھے آٹھ لاکھ ہے۔ اسلامی مذہبی طریقہ کار کے مطابق کسی بھی مسلمان کے انتقال کے بعد جب اس کی تدفین کی جاتی ہے، تو اسے کسی قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر یورپی ممالک میں میت کے لواحقین کو مقامی قبرستانوں میں قبریں دس، بیس یا تیس سال کے لیے کرائے پر لینا پڑتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈچ مسلمان انتقال کے بعد اپنی تدفین کے لیے اب تک اس وجہ سے اپنے ترکی اور مراکش جیسے آبائی ممالک کا انتخاب کرتے ہیں کہ یوں ان کی تدفین ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لیے کر دی جائے، یا پھر اس لیے کہ ان کی قبر کبھی ناپید نہ ہو جائے۔

غیر معینہ مدت کے لیے تدفین پر فی کس اوسط لاگت آٹھ ہزار یورو

ڈچ روزنامے 'وولکس کرانٹ‘ کے مطابق ہالینڈ میں اگر کسی میت کو غیر معینہ عرصے کے لیے کسی قبر میں دفنانا مقصود ہو، تو اس پر اوسطاﹰ تقریباﹰ آٹھ ہزار یورو لاگت آتی ہے۔ یہ بےتحاشا خرچہ بھی ایک وجہ ہے کہ اکثر ڈچ مسلمان یا ان کے لواحقین اپنے گھرانے کی کسی بھی میت کی تدفین کے لیے زیادہ تر آبائی وطن ہی کا انتخاب کرتے آئے ہیں۔

'بِیبِن‘ کے سربراہ حامد امرینو کے مطابق گرونِنگن کے قریب اس آئندہ خصوصی مسلم قبرستان میں کسی بھی مسلمان کی کسی قبر میں ہمیشہ کے لیے تدفین پر اوسطاﹰ زیادہ سے زیادہ تین ہزار یورو لاگت آیا کرے گی۔

جرمنی کی مثال

نیدرلینڈز کی طرح اس کے ہمسایہ ملک جرمنی میں بھی، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، مسلمانوں کی آبادی کئی ملین بنتی ہے۔

جرمنی میں آباد مسلمانوں کی اکثریت نسلی طور پر ترک ہے اور ان میں بھی یہ خواہش اب زیادہ سے زیادہ پائی جاتی ہے کہہ انتقال کے بعد انہیں جرمنی ہی میں مسلمانوں کے کسی مقامی قبرستان میں دفنایا جائے۔

جرمنی کے کئی شہروں کے عام قبرستانوں میں، جہاں ملک کی اکثریتی مسیحی آبادی سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کو دفنایا جاتا ہے، مسلمانوں کی تدفین کے لیے اکثر قبرستان کا ایک حصہ مختص کر دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ وائن ویسٹ فیلیا کے شہر وُوپرٹال میں ایک ایسے نئے قبرستان کی تعمیر کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے، جو جرمنی میں مسلمانوں کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہو گا۔

م م / ش ح (کے این اے، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں