1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹھائیس ممالک کی منتخب کردہ مشترکہ پارلیمان: حیران کن حقائق

مقبول ملک بیرنڈ ریگرٹ / ع ب
22 مئی 2019

یورپی پارلیمان کے لیے انتخابات تیئیس سے لے کر چھبیس مئی تک ہوں گے۔ یورپی یونین کے اس پارلیمانی ادارے کو منتخب کرنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یورپی یونین میں اس قانون ساز ادارے کا کام کیا ہے؟

https://p.dw.com/p/3IuO1
تصویر: AFP/F. Florin

یورپی پارلیمان کے ارکان کے یونین کے تمام رکن ممالک کے بالغ شہریوں کی طرف سے براہ راست انتخاب کا سلسلہ 1979ء میں شروع ہوا تھا۔ اس قانون ساز ادارے کے ارکان کی مجموعی تعداد 751 ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہی ادارہ تقریباﹰ ڈھائی درجن ممالک کے عوام کی طرف سے حقیقی معنوں میں جمہوری طور پر منتخب کردہ دنیا کا سب سے بڑا اور اپنی نوعیت کا واحد کثیرالقومی ادارہ ہے۔

نصف ارب سے زائد شہری

یورپی پارلیمان کے ارکان کا چناؤ اس بلاک رکن (اب تک) 28 ممالک کے 512 ملین عوام کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اس الیکشن میں برطانوی عوام بھی حصہ لے رہے ہیں، جو اس ادارے کے برطانوی نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔

لیکن مستقبل میں جب ممکنہ طور پر برطانیہ یونین سے نکل جائے گا، تو یورپی پارلیمان میں برطانوی ارکان کو حاصل نمائندگی کا سلسلہ بھی خود بخود ختم ہو جائے گا۔ تب یہ مقننہ 27 رکن ممالک کا مشترکہ قانون ساز ادارہ ہو گی۔

چار دن تک انتخابات

اس مرتبہ یورپی پارلیمان کے الیکشن جمعرات 23 مئی سے لے کر 26 مئی تک ہوں گے اور یونین کے رکن ممالک میں قومی سطح پر رائے دہی ان ریاستوں کی طرف سے اپنے لیے منتخب کیے گئے دنوں میں ہو گی۔

مثال کے طور پر جرمنی میں، جو یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور جس کے قومی سطح پر یورپی پارلیمانی ارکان کی تعداد بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، اسٹراس برگ کی اس پارلیمنٹ کے لیے الیکشن 26 مئی اتوار کے روز ہوں گے۔

پانچ سالہ پارلیمانی مدت

یورپی پارلیمان کے انتخابات ہر پانچ سال بعد کرائے جاتے ہیں۔ آئندہ الیکشن اپنی نوعیت کے نویں انتخابات ہوں گے۔ اس پارلیمان میں کئی طرح کی سیاسی سوچ کی حامل جماعتوں کے متعدد بڑے بڑے دھڑے ہیں، جن میں سے اب تک سب سے بڑا حزب سوشل ڈیموکریٹس کا ہے، جس کے بعد قدامت پسند ارکان پر مشتمل جماعتوں کا دھڑا بھی بہت بڑا ہے۔

اس وقت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے یورپی یونین کے ناقد سیاستدانوں اور دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتوں کے ارکان پر مشتمل دھڑا پارلیمان میں تقریباﹰ بیس فیصد ارکان کی نمائندگی کرتا ہے۔

2014ء سے پہلے 2009ء میں ہونے والے یورپی الیکشن کے نتیجے میں اس دھڑے کے ارکان کی طاقت صرف 11 فیصد تھی۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران پوری یورپی یونین میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں اور عوامیت پسند جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

قانون سازی کے لیے اشتراک عمل

اس وقت یورپی پارلیمان میں مختلف سیاسی دھڑوں کی کل تعداد آٹھ ہے، جو اکثریتی بنیادوں پر قانون سازی کے لیے متنوع موضوعات پر رائے شماری کے دوران آپس میں تعاون بھی کرتے ہیں تاکہ یورپی عوام کے حق میں زیادہ سے زیادہ مؤثر فیصلہ سازی کی جا سکے۔

پانچ سال میں گیارہ سو قوانین کی منظوری

اپنے عنقریب ختم ہونے والے پانچ سالہ پارلیمانی عرصے میں موجودہ پارلیمان نے کل 1100 قانونی مسودوں کی منظوری دی۔ یہ وہ قانون سازی ہے، جو ایک بار مکمل ہو جائے تو بعد میں یونین کے رکن تمام ممالک کے قومی پارلیمانی اداروں کو بھی اس کی انفرادی طور پر توثیق کرنا ہوتی ہے تاکہ اس پورے بلاک کے نصف ارب سے زائد انسان ان فیصلوں سے فائدے اٹھا سکیں۔

موبائل پارلیمنٹ

کئی یورپی پارلیمانی ارکان اس بات پر شدید تنقید بھی کرتے ہیں کہ یہ مقننہ ایک ’چلتی پھرتی سرکس‘ ہے، اس لیے کہ یہ قانون ساز ادارہ مکمل طور پر کسی ایک شہر سے نہیں بلکہ تین مختلف شہروں سے کام کرتا ہے۔ فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں اس ادارے کا اجلاس ہر چار ہفتوں بعد ہوتا ہے۔ اس پارلیمنٹ کے احزاب اور کمیٹیوں کے اجلاس بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہوتے ہیں، جہاں یورپی یونین کے صدر دفاتر بھی ہیں۔

رہ گئی بات پارلیمان کی انتظامیہ کی، تو وہ لکسمبرگ سے کام کرتی ہے۔ ان تینوں شہروں میں یورپی پارلیمان کی اپنی عمارات بھی موجود ہیں، جہاں اس کا مکمل اجلاس بھی منعقد کیا جا سکتا ہے۔

کئی سرکاری زبانیں

یورپی پارلیمان ایک ایسا قانون ساز ادارہ ہے، جس کی سرکاری زبانیں کئی ہیں۔ اس میں عام طور پر رکن ممالک کی 200 سے زائد قومی سیاسی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ تمام رکن ریاستیں اپنے ہاں ان انتخابات کا انعقاد اپنے اپنے قومی قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔

اس ادارے میں کس ملک کو کتنی نمائندگی حاصل ہے، اس کا اندازہ اس موازنے سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بہت چھوٹے سے ملک لکسمبرگ کے یورپی پارلیمانی ارکان کی تعداد چھ ہوتی ہے جبکہ سب سے زیادی آبادی والے ملک جرمنی سے اس ادارے کے منتخب ارکان کی تعداد 96 ہوتی ہے۔

کم ہوتی ہوئی عوامی شرکت

یورپی پارلیمان اگرچہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد جمہوری ادارہ ہے لیکن اس کے انتخابات میں عوامی شرکت مسلسل کم بھی ہوتی جا رہی ہے۔ 1979ء میں جب پہلے یورپی پارلیمانی الیکشن ہوئے تھے، تو تمام رکن ممالک میں اس جمہوری عمل میں عوامی شرکت کا تناسب 63 فیصد رہا تھا۔ اس کے برعکس 2014ء میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں صرف 42 فیصد یورپی ووٹروں نے اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں