1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوم دفاع و یوم شہداء تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
6 ستمبر 2018

پاکستان میں آج یوم دفاع منایا جا رہا ہے لیکن کئی ناقدین ان تقریبات کو فوج کی طرف سے معاشرے پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ ان تقریبات پر ہونے والے اخراجات کو بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/34QSG
Pakistan - Defense Day
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

آج یوم دفاع کے حوالے سے پاکستان بھر میں تقریبات ہوئیں جب کہ میڈیا پر بھی اس دن کے حوالے سے خصوصی اشتہارات شائع کیے گئے ہیں۔ ایسے اقدامات پر اٹھنے والے اخراجات بھی کئی حلقوں میں زیرِ بحث ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں خراج عقیدت پیش کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کے لئے اتنی مہنگی تقریبات کا انعقاد مناسب نہیں،’’جس طرح نواز شریف اور سیاست دانوں کی اشتہار بازی کا نوٹس لیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح اس تمام اشتہار بازی کا بھی نوٹس لیا جانا چاہیے۔ خراج عقیدت قرآن خوانی اور فاتحہ کے ذریعے بھی پیش کیا جا سکتا تھا لیکن ایک ایسے وقت میں، جب ملک میں کفایت شعاری کی باتیں ہو رہی ہیں اور ہمیں فوری طور پر بارہ بلین ڈالرز چاہییں، میرے خیال میں ان تقریبات پر اتنا پیسہ خرچ کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘

Pakistan Atomrakete
تصویر: picture-alliance/AP

احسن رضا کا کہنا تھا کہ اس دن کے موقع پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کو اس طرح میڈیا پر خراج عقیدت پیش نہیں کیا گیا، جیسے کہ فوجیوں کو پیش کیا گیا ہے،’’تمام شہدا اور دہشت گردی کی جنگ میں جان دینے والے قابلِ احترام ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ میں ایک لسانی اکائی کے طور پر ہزارہ والے بڑی تعداد میں ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ آپ جا کر دیکھیں کسی بل بورڈ پر ان کی تصویر نہیں۔ کسی میڈیا شو میں ان کے گھر والوں کو نہیں بلایا گیا۔ اگر سویلین کو نظر انداز کیا جائے گا تو لوگوں کو یہ کہنے کہ موقع ملے گا کہ کچھ عناصر اس طرح کی تقریبات کو ایک مخصوص ادارے کے پروجیکشن کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

سول سوسائٹی کے ارکان کے خیال میں ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک تشدد سے پہلے ہی زخمی ہے اور اس کی بہت بڑی قیمت ادا کر چکا ہے، بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی نمائش نہیں ہونی چاہیے۔ انسانی حقوق کمیشن کے اسد بٹ بھی ان تقریبات کے ناقد ہیں۔ اس مسئلے پر ڈوئچے ویلے کو اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایک طرف ہم پڑوسی ممالک کو دوستی کا پیغام دے رہے ہیں اور دوسری طرف ہم چوک ، چوراہوں اور میڈیا پر بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی نمائش کر رہے ہیں۔ ہتھیاروں کے اس زہر نے پہلے ہی ہمیں بہت متاثر کیا ہے۔ ایسی نمائش  کا مقصد صرف یہ ہے کہ یوم شہدا ء کو فوج کی تعریف و توصیف کے لئے استعمال کیا جائے اور اسکو مزید مقدس بنا دیا جائے تاکہ کوئی ان پر تنقید نہ کر سکے۔ میر ے خیال میں یہ بات مناسب نہیں ہے۔‘‘

لیکن ان تقریبات کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صرف فوج کو ہی میڈیا کوریج نہیں دی جا رہی بلکہ آئی ایس پی آر کے اشتہار میں بے نظیر بھٹو سے لے کر بشیر بلور سمیت کئی سویلین کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالخالق ہزارہ، جو ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ فوج اس دن کو اپنی پروجیکشن کے لئے استعمال کر رہی ہے، ’’ہمارے ہزارہ قبرستان میں فوج کے افسران نے نہ صرف ان شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا جو فوج میں تھے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں شہید ہونے والے ہزارہ سویلین کو بھی انہوں نے خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے علاوہ وہ متاثرہ خاندانوں کے گھروں پر بھی گئے اور ان کے اعزاز میں کئی تقریبات بھی منعقد کیں۔ تو میرے خیال میں خوش آئند بات ہے کہ قربانیوں کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور انہیں عزت و توقیر دی جا رہی ہے۔‘‘