1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن تنازعہ، پابندیوں پر روس کا شدید ردعمل

عاطف بلوچ31 جولائی 2014

ماسکو حکومت نے یوکرائن بحران کے تناظر میں روس پر عائد کی جانے والی مغربی پابندیوں کو ’تباہ کن‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں یورپ میں توانائی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cmaj
تصویر: Mikhail Klimentyev/AFP/Getty Images

روسی وزارت خارجہ نے بدھ کے دن ان اضافی پابندیوں پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان اقتصادی پابندیوں کے باعث نہ صرف یورپ میں توانائی سے متعلقہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا بلکہ امریکا کے لیے بھی اس کے الٹے نتائج برآمد ہوں گے۔

روسی حکومت کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مشرقی یوکرائن میں فوج نے باغیوں کے خلاف کامیاب پیشقدمی کرتے ہوئے Avdiyivka نامی علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ علاقہ روس نواز باغیوں کے گڑھ تصور کیے جانے والے شہر دونیٹسک سے صرف آٹھ میل ہی دور واقع ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یوکرائن کے تنازعے میں ملوث ہونے پر امریکا نے روس کے خلاف سخت ترین اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ماسکو حکومت نے واشنگٹن کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ روسی وزرات خارجہ کی طرف سے بدھ کو جاری کیے گئے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ماسکو کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسی آزادانہ پالیسیاں اپنا لے، جو واشنگٹن حکومت کے لیے نامناسب ہوں۔

Ost Ukraine Pro Russische Militanten Donetsk
مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیتصویر: BULENT KILIC/AFP/Getty Images

اس بیان میں یورپی صارفین کو بھی خبردار کیا ہے کہ روس کے توانائی، عسکری اور مالیات کے شعبہ جات پر پابندیوں کے اثرات انہیں ہی بھگتنا ہوں گے۔ روسی وزرات خارجہ نے ان پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ سوچے سمجھے بغیر اٹھایا جانے والا یہ ایک غیر ذمہ درانہ قدم ہے، ’’اس سے یورپ کے توانائی کے شعبے میں قیمتیں بڑھ جائیں گی۔‘‘

جی سیون کا روس کو انتباہ

اس صورتحال میں ترقی یافتہ سات ممالک کے بلاک جی سیون نے روس کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ مشرقی یوکرائن میں باغیوں کی مدد کرنا ترک نہیں کرتا تو اسے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری کیے گئے جی سیون کے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ روس کے پاس موقع ہے کہ وہ اب بھی تناؤ میں کمی لانے کی کوشش کرے۔

جی سیون کے اس اعلامیے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ملائشیائی طیارے کی جائے حادثہ پر فائر بندی کی جائے تا کہ اس مسافر بردار طیارے کی تباہی کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا دائرہ آگے بڑھایا جا سکے۔

ادھر ماسکو حکومت نے ایسے الزامات ایک مرتبہ پھر مسترد کر دیے ہیں کہ اس نے مشرقی یوکرائن کے باغیوں کو ایسے میزائل فراہم کیے، جن سے انہوں نے ملائشیائی ایئر لائنز کے طیارے کو مبینہ طور پر مار گرایا تھا۔

دریں اثناء اس طیارے کی جائے حادثہ پر باغیوں اور کییف افواج کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں ڈچ اور آسٹریلوی تحقیقاتی افسران چوتھے دن بھی کریش کے مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ کییف میں موجود ڈچ ٹیم کے سربراہ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ شدید لڑائی کے نتیجے میں آئندہ کچھ مزید دنوں تک جائے حادثہ پر پہنچنے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔