1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہ راستہ ہے اپنی منزل تک پہنچنے کا

بینش جاوید
9 مئی 2019

نقل و حمل جیسا بنیادی حق خواتین کو کئی مواقع میسر کر سکتا ہے لیکن پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں خواتین آج تک اس بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔

https://p.dw.com/p/3IFR1
Beenish Javed DW Urdu
تصویر: DW/A. Awan

اس تحریر کو لکھتے وقت مجھے پاکستان کی ایک شام یاد آ گئی ہے۔ میں ایک محفوظ فوجی کالونی میں مغرب کے وقت اپنے گھر سے باہر چہل قدمی کر رہی تھی۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی اور میں نے احتراماً اپنا سر ڈھکا ہوا تھا۔ اچانک ایک موٹر سائیکل سوار مجھے چھوتا ہوا تیزی سے گزر گیا۔ خوف کے باعث میری آواز بھی نہ نکل سکی اور میں اس شخص کو روک نہ سکی۔ کئی گھنٹے مجھ پر خوف طاری رہا۔ تب یہی سوچا کہ اتنی سی زیادتی نے میرا وجود ہلا کر رکھ دیا، ان پر کیا گزرتی ہو گی جن کو اس سے کئی گنا زیادہ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت زیادہ رش والے بازاروں میں جانا میں نے اس لیے چھوڑ دیا کیوں کہ بھیٹر میں ہراساں کرنا کچھ گندی نیت والوں کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔

جب خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو میں سب سے پہلے سوچتی ہوں کہ معاشرتی لحاظ سے خواتین کو کیا حقوق حاصل ہیں؟ کیا ایسے قوانین موجود ہیں، جو خواتین کو زمین کی ملکیت، طلاق لینے کی آسانی، اپنی پسند سے شادی کرنے کا حق، تعلیم اور ملازمت کے یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں؟۔ پاکستان میں بہت سے قوانین تو موجود ہیں لیکن خواتین پر تشدد کے واقعات یا اپنی پسند سے شادی کرنے کی خواہش پر لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے جیسے واقعات کے بارے میں سن کر ایسا لگتا ہے کہ ابھی پاکستانی معاشرے میں خواتین کو مزید اپنے حقوق کی جنگ بہت عرصے تک لڑنا ہو گی۔

لیکن اس تحریر کے ذریعے میں خواتین کے ان حقوق کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ میں ایک ایسے بنیادی حق کے بارے میں لکھنا چاہتی ہوں جو شاید بہت سے لوگوں کے ذہن میں آتا بھی نہ ہو۔ وہ حق ہے آزادانہ نقل و حمل کا۔ جرمنی کے شہر بون میں دفتر سے گھر واپسی اکثر پیدل ہوتی ہے۔ دریائے رائن کے ساتھ چہل قدمی کرتے مجھے یہ خوف محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی میرا تعقب کر رہا ہے، کوئی مجھے چھوتا ہوا تیزی سے گزر جائے گا۔ اس طرح کے خوف سے آزاد میرے دن کا یہ سب سے بہترین وقت ہوتا ہے جب میں آزاد فضا کو بھرپور انجوائے کرتے اپنی منزل تک رواں دواں رہتی ہوں۔

بہت کوشش کے باوجود میرے لیے تحریر کی ابتدا میں لکھے گئے واقعات جیسے مناظر بھلا دینا ممکن ہی نہیں ہے، جن کے باعث بطور ایک خاتون میں آج بھی پاکستان جا کر اکیلے پیدل چلنے کی بجائے گاڑی کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کو ترجیح دیتی ہوں۔

 جرمنی پہنچے اور یہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد مجھے اس آزادی کا احساس ہونا شروع ہوا، جو ایک عورت بے خوف گھومنے پھرنے کا حق رکھنے سے محسوس کرتی ہے۔ چاہے بس ہو، ‍ٹرین یا ٹرام یا پھر گھر سے باہر نکلتے ہی بازار میں گھومنا۔ اپنی مرضی سے کسی بھی وقت اپنے گھر سے باہر نکل جانے کا فیصلہ اتنی آسانی سے کر لینا ایک ایسی دولت ہے، جسے میں کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی۔

اپنے ملک میں رہتے ہوئے نقل و حمل جیسے بنیادی حق کا تو خیال ہی نہیں آتا تھا۔ پریشانیاں بہت مختلف تھیں۔ ان رشتہ داروں کے خلاف آواز اٹھاتی تھی، جن کا مقصد بس یہ تھا کہ لڑکیوں کی صحیح عمر میں شادی کر دی جائے۔ تشدد سہنے والی اپنی کزنز کو اس گھریلو اذیت کو خیر باد کہتے ہوئے طلاق لینے کے مشورے دیا کرتی تھی۔ ان سہیلیوں کا سہارا بنتی تھی جو لڑکے والوں کے عجیب و غریب مطالبات کے باعث اپنا گھر بسا نہیں پا رہی تھیں۔ لیکن سڑکوں پر پیدل چلنے اور خود اکیلے اپنے بہت سے کام سرانجام دینے کا حق ہونا ایک خاتون کو کتنا آزاد کر سکتا ہے اس کا احساس  تب نہ تھا۔

میں یہ جانتی ہوں کہ پاکستان میں ایسے بازار بھی موجود ہیں اور ایسے علاقے بھی، جہاں خواتین کی نقل و حرکت ایک بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک عام پاکستانی خاتون بلا خوف و خطر گھر سے باہر جا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں ان لوگوں کے رویوں پر حیرانی ہوتی ہے جو کبھی خاتون مارچ نکالنے والی خواتین پر تنقید کرتے ہیں یا غیرسرکاری تنظیموں کی خواتین پر مغربی ایجنڈا چلانے  کا الزام عائد کرتے ہیں۔

اگر عورت ہراساں ہونے کے خوف کے بغیر گھر سے نکل سکے تو اس کے لیے تعلیم کے مواقع کھل جائیں گے، اسے ملازمت پر جانے کے لیے  بھائی، باپ یا شوہر کی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔ نقل و حمل کی آزادی عورت کے لیے صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کی آزادی نہیں ہے۔ یہ راستہ ہے خود اعتمادی کا، یہ راستہ ہے اپنی منزل تک جلد پہنچنے کا، یہ راستہ ہے زندگی کو بھرپور انداز میں جینے کا۔ صرف یہ راستہ مل جائے تو خواتین اپنے لیے بہت سے راستے خود ہی بنا لیں گی۔

نوٹڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔