1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہ گھر آپ کا اپنا ہے کیا؟

24 جنوری 2024

گھر آنے والا کوئی مہمان اگر ہم سے پوچھے کہ آیا یہ گھر ہماری ذاتی ملکیت ہے، تو وجہ شاید عام انسانی تجسس، ہمدردی اور نیک خواہشات ہی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سوال کا پوچھا جانا درپردہ لالچ کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4bdXY
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

دنیا کے ہر ملک میں محبت کی شادیاں بھی ہوتی ہیں اور دلہا دلہن کے گھرانوں کی طرف سے مشترکہ رضامندی کے ساتھ اہتمام کردہ وہ شادیاں بھی جو ارینجڈ میریجز کہلاتی ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر قدامت پسند اور اکثریتی طور پر مسلم مذہبی معاشرے میں زیادہ تر شادیاں  ارینجڈ میریجز ہی ہوتی ہیں۔ سماجی سطح پر یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پاکستان میں کی جانے والی زیادہ تر محبت کی شادیاں یا لو میریجز بھی ارینجڈ لو میریجز کے طور پر طے پاتی ہیں۔

پاکستان کا شہر یا قصبہ کوئی بھی ہو، کوئی بھی رشتہ طے کرنے سے پہلے جب لڑکے کے اہل خانہ لڑکی کے گھر پہلی بار اپنی ممکنہ طور پر ہونے والی بہو دیکھنے جاتے ہیں، تو ایک رجحان ایسا ہے، جو ماضی میں بہت ہی کم لیکن فی زمانہ بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ رجحان دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص سوال پوچھنے سے متعلق ہے۔ ہم بات مہمانوں میں شامل بزرگوں کی طرف سے میزبانوں سے اکثر کھل کر پوچھے جانے والے اس سوال کی کر رہے ہیں کہ میزبان جس گھر میں رہتے ہیں، آیا وہ ان کی اپنی ملکیت ہے؟

نچلے سماجی طبقات کے غربت کے مارے شہریوں اور درمیانے طبقے کے ہوش ربا مہنگائی سے تنگ آئے پاکستانی باشندوں کو جس سماجی اور سیاسی عدم استحکام اور معیشت، روزگار اور مالیات کے جن بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان کے پیش نظریہ بات قابل فہم ہے کہ پاکستانی افرادی قوت کئی برسوں سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں بیرونی ممالک کا رخ کر رہی ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں وہ لالچ بھی سمجھ آتا ہے، جس کا مظاہرہ شادیاں طے کرتے ہوئے مختلف سماجی طبقات کی طرف سے جہیز کے بےتحاشا مطالبات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی طرف سے اب تک جہیز کے لڑکی والوں کی کمر توڑ دینے والے مطالبات کے خلاف قانون سازی بھی کی جا چکی ہے، لیکن ان قوانین پر ان کی اس روح کے مطابق عمل درآمد آج تک دیکھنے میں نہیں آتا، جس روح اور عملی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قوانین منظور کیے گئے تھے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آیا جس گھر میں کسی لڑکی کا خاندان رہ رہا ہوتا ہے، وہ اسی خاندان کی ملکیت بھی ہے، تو یہ سوال ایک خاص سماجی لالچ اور غیر اعلانیہ مادی منافقت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

لڑکی کے خاندان کا رہائشی گھر اس گھرانے کی ملکیت ہے یا کرائے کا کوئی مکان ہے، اس سے لڑکے کے گھرانے کو کوئی فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ نہ تو شادی کے بعد لڑکے کو اپنے سسرال میں رہنا ہوتا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی مکان کسی بیٹی کو جہیز میں دیا جانا ہوتا ہے۔ پھر بھی یہ جاننا اس لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ایسے کسی گھر کے علاقے، رقبے اور ممکنہ قیمت سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس گھر کے مکین اپنی بیٹی کو جہیز میں کیا کیا کچھ دے سکیں گے اور ساتھ ہی لڑکی والوں سے جہیز میں لڑکے کے لیے نئی موٹر سائیکل کا مطالبہ کیا جانا چاہیے یا پھر گاڑی کا۔ اس کے علاوہ لڑکی کے والدین کا رہائشی مکان اپنا ہو، تو یہ اندازہ لگانے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے کہ شادی کے بعد بھی گاہے بگاہے لڑکا اپنے سسرال سے کیا کچھ مانگ سکتا ہے۔

بےشرمی کی حد تک اس مادہ پرستانہ سوچ کا ہی ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ میں اسلام آباد ہی کی رہنے والی ایک ایسی نوجوان لڑکی کو بھی جانتی ہوں، جس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور جس کے والد ایک ایماندار سرکاری افسر ہیں۔ ابھی حال ہی میں اس لڑکی کے گھر تیسری مرتبہ کسی لڑکے کے گھر والے رشتہ دیکھنے آئے اور پوچھے گئے سوالات میں یہ بھی شامل تھا: ”یہ گھر آپ کا اپنا ہے کیا؟" اس سوال کا جواب بچی کے والد نے نفی میں دیا اور صاف صاف بتا دیا کہ ان کا گھر کرائے کا تھا۔ نتیجہ یہ کہ یہ ممکنہ تیسرا رشتہ بھی طے پانے سے پہلے ہی مسترد ہو گیا۔

اسلام آباد کی رہائشی اور اپنی جاننے والی جس لڑکی نے مجھے اپنے ہی گھر میں پیش آنے والے جس مسلسل تیسرے واقعے کی تفصیلات بتائیں، میں دانستہ طور پر اس کا نام نہیں لکھنا چاہتی۔ لیکن ایک سوال اس لڑکی نے مجھے سے پوچھا تھا، جس کا میرے پاس اس وقت ایسے لوگوں کی مذمت کرنے کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ سوال تھا، ”لڑکے لڑکی کی شادی اور اس کے مستقبل میں کامیاب ہونے یا نہ ہونے کا لڑکی کے خاندان کے رہائشی مکان کی ملکیت یا غیر ملکیت سے بھلا کبھی کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟"

آج اس سوال کے پوچھے جانے کے کئی روز بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ وہ شادی جس کے طے ہونے میں لڑکی کے والدین کے گھر کا ان کی اپنی ملکیت ہونا ہی کلیدی کردار ادا کرے، اس شادی کی کامیابی کے امکانات بہت کم اور ناکامی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے سوالات اور اس رجحان کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جائے اور لڑکے والے رشتے طے کرتے وقت لڑکی والوں کو جہیز کے نام پر لوٹنے سے گریز کریں۔

اس لیے کہ ہر وہ لڑکا جس کے والدین شادی کے لیے بےتحاشا جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں اور لڑکی کے والدین کے ذاتی رہائشی گھر کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں، ایسا ہر لڑکا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد نہیں ہوتا۔ اگر اس کی ایک دو یا اس سے بھی زیادہ بہنیں ہوں، تو اس کے گھرانے کا ایسا لالچی رویہ خود اس خاندان کے لیے قدرت کا انتقام بھی بن سکتا ہے۔

دوسروں کے لیے گڑھا کھودنا پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی معاشرے میں کوئی قابل تعریف عمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس عمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ گڑھا کھودنے والا کبھی یہ سوچتا ہی نہیں کہ اسی گڑھے میں وہ خود بھی گر سکتا ہے۔ کوئی اپنے طور پر ایسا سوچے یا نہ سوچے، ہوتا اکثر ایسا ہی ہے اور پھر باقی صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔