1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 جرمن جاب مارکیٹ میں داخلہ مشکل مگر ناممکن نہیں

صائمہ حیدر
28 مئی 2017

جرمنی میں نئے آنے والوں کو ملازمت کی تلاش کے سلسلے میں مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متعدد تارکین وطن نے ’انفو میگرانٹس‘ کو بتایا کہ اس حوالے سے اُن کا تجربہ کیسا رہا۔

https://p.dw.com/p/2dheR
Deutschland Restaurant Touch Down in Bergisch Gladbach
اگرچہ صابر کو کسی قسم کے کام کا تجربہ نہیں تھا لیکن اُنہوں نے مختصر مدت میں ہی جرمن زبان میں مہارت حاصل کر لیتصویر: DW/N. Nassif

روزگار کے لیے جرمن وفاقی ادارے کے سربراہ ڈیٹلف شیلے سے جب بطور افرادی قوت مہاجرین کے انضمام کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا،’’ سن 2020 تک جرمنی میں نئے آنے والے افراد میں سے نصف کو ملازمتیں مل جائیں گی۔‘‘

'جرمن انسٹیٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ ریسرچ‘ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2013 میں جرمنی آنے والے تارکین وطن میں سے 33.3 فیصد افراد کو سن 2016 تک روزگار کے مواقع حاصل ہوئے جبکہ سن 2015 میں جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کو ملازمتیں ملنے کی شرح محض دس فیصد رہی۔

خوش قسمت تارکین وطن

مصر کے صابر یحییٰ اُن خوش قسمت تارکین وطن میں سے ایک ہیں جنہیں جرمنی میں ملازمت مل چکی ہے۔ صابر سن 2015 میں جرمنی پہنچے تھے اور اب مغربی شہر ’برگش گلاڈ باخ‘ میں ایک امریکی طرز کے ریستوران میں کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ ابتداء میں صابر اس ریستوران میں پیشہ وارانہ تربیت اور تجربہ حاصل کرنے آئے تھے تاہم اُن کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر ریستوران کے مالک جمال نے اُنہیں کُل وقتی ملازمت کے کنٹریکٹ کی پیشکش کر دی۔ اگرچہ صابر کو کسی قسم کے کام کا تجربہ نہیں تھا لیکن اُنہوں  نے مختصر مدت میں ہی جرمن زبان میں مہارت حاصل کر لی۔ جمال کی معاونت کے باوجود مقامی لیبر آفس نے صابر کا کل وقتی کانٹریکٹ منظور نہیں کیا لیکن انہیں نصف وقت کام کی اجازت مل گئی۔

Deutschland München Syrischer Flüchtling als Treinee bei BMW
تصویر: Getty Images/J. Koch

 

 کم خوش قسمت مہاجرین

دوسری جانب مصر کی ایک 53 سالہ خاتون پناہ گزین منال جو سن 2012 میں جرمنی آئی تھیں، ملازمت کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔ منال نے جرمن زبان کے مختلف کورسز میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ ایسے تربیتی کورسز بھی کیے جو مہاجرین کو لیبر مارکیٹ میں ملازمت کے ڈھونڈنے کے طریقے بتاتے ہیں۔ اس کے باوجود منال کو ملازمت ملنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔

چھبیس سالہ مصری تارک وطن مائیکل نے کم مدت میں جرمن زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا اور اسے جلد ہی ایک ایسی کمپنی نے پیشہ وارانہ تربیت مہیا کی جو گھروں میں پارسل اور خطوط پہنچاتی ہے۔

تربیت مکمل ہونے کے بعد کمپنی کے مالک نے مائیکل کو ملازمت کی پیشکش کی لیکن ایک ایسی شرط کے ساتھ جو مائیکل کو بہت غیر منصفانہ لگی۔ کمپنی کے مالک نے کہا کہ وہ اسے ایک مقررہ ماہانہ تنخواہ کے بجائے ہر پیکٹ پر پچاس سینٹ ادا کرے گا۔

مائیکل نے مہاجرین کے حوالے سے تازہ ترین خبریں اور اطلاعات شائع کرنے والی یورپی ویب سائٹ ’انفو میگرانٹس‘ کو بتایا،’’ یہ میری ہیلتھ انشورنس ادا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں۔‘‘

  جرمن انسٹیٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ کے مطابق ایک سروے میں شامل مہاجرین میں سے 40 فیصد کو ملازمت اُن کے دوستوں یا رشتہ داروں کے توسط سے، 32 فیصد کو جرمن وفاقی روزگار ایجنسی کے ذریعے جبکہ دس فیصد کو روزگار کے مواقع اشتہارات اور انٹر نیٹ کے ذریعے ملے۔ سترہ فیصد تارکین وطن نے ملازمتوں کے حصول کے لیے دیگر طریقوں کا استعمال کیا۔