1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دیوار برلن کی تعمیر کے 49 سال

13 اگست 2010

دیورا برلن کی تعمیر شروع ہونے کے 49 برس مکمل ہونے کے موقع پر برلن میں سرکاری اور نجی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شہر میں مختلف نمائشوں کی مدد سے اس تاریخی واقعہ کو یاد کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/OmvM
دیورا برلن 28 سے زائد برس تک جرمنی کی تقسیم کا نشان بنی رہیتصویر: Andrzej Stach

دیورا برلن 28 سے زائد برس تک جرمنی کی تقسیم کا نشان بنی رہی۔ اس متنازعہ دیوار کی تعمیر13 اگست 1961ء کو شروع ہوئی تھی۔ تعمیر سے دو ماہ قبل ہی عوامی جمہوریہ جرمنی یعنی DDR کے سربراہ مملکت والٹر البرشٹ نے اپنے ایک بیان میں یہ ضمانت دی تھی کہ یہ دیورا تعمیر نہیں کی جائےگی۔ آج جرمنی کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی اسی تاریخی دیورا کی تعمیر شروع ہونے کے انچاس برس مکمل ہو گئے ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں سیاح دیوار برلن کے بقایا جات دیکھنے کے لئے برلن کا رخ کرتے ہیں۔ یوآخم نوئےمن نے انچاس برس قبل اس دیورا کی تعمیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مشرقی جرمنی کی آمرحکومت کے پاس عوام کی سہولت کے لئے کوئی منصوبہ نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ً"ہم اپنے آپ کو ایک قیدی کی طرح محسوس کرتے تھے، ہم باہر نہیں جا سکتے تھے۔ اس وقت ہمارے لئے دنیا ختم ہو گئی تھیً

Berliner Mauer
دیوار برلن کی تعمیر13 اگست 1961ء کو شروع ہوئی تھیتصویر: AP

برلن کے ارد گرد یہ دیوار 155 کلومیٹر طویل تھی۔ اس پوری دیورا کی سخت نگرانی کی جاتی تھی اوریہ کام 11 ہزار پانچ سو سپاہی انجام دیتے تھے۔ دیورا پار کرنے کی کوشش کرنے والے کو گولی مارنے کا حکم تھا۔ نگرانی کرنے والے کتے، بارودی سرنگیں، خود کار ہتھیار اور رات کو دن بنا دینے والی تیزلائٹوں سے جمہوریہ سے نقل مکانی کو روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ان تمام سخت ترین اقدامات کے باوجود مشرقی جرمن باشندے وقتاً فوقتاً دیورا برلن پار کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ پانچ ہزارافراد مغربی جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ اعداد وشمار رکھنے والے ایک سرکاری ادارے کے مطابق 136افراد اس دوران ہلاک ہوئے۔

یوآخم نوئےمن کا شماران انہی افراد میں ہوتا ہے، جو دیوار برلن پار کر کے مغربی جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں کچھ لوگوں کے اندر پائے جانے والے اس رجحان کے خلاف مزاحمت کی جانی چاہیے کہ سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں حالات اتنے بھی خراب نہیں تھے اور یہ کہ وہاں بھی اچھی زندگی گزاری جا سکتی تھی۔

Ansicht auf den Todesstreifen und die Mauer an der Bernauer Straße heute
دیوار برلن کے ایک زون کو موت کی پٹی بھی کہا جاتا تھاتصویر: DW

یوآخم نوئےمن آج کل سیاحوں کے مختلف گروپوں کو دیورا برلن کے ساتھ اس علاقے کے بارے میں بتاتے ہیں جہاں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں اور گولی مارنے کا حکم تھا۔ اس زون کو موت کی پٹی بھی کہا جاتا تھا۔ دیورا برلن تعمیر کرنے کے بہت سے مقاصد تھے اور ان میں سے ایک مشرقی جرمنی کے اقتصادی مفادات کا دفاع کرنا تھا۔ کیونکہ 1949ء سے 1961ء کے درمیان سولا لاکھ سے زائد افراد مشرقی حصے سے مغربی جرمنی ہجرت کر چکے تھے۔ مشرقی جرمنی کی سوشلسٹ حکومت نے اس ہجرت کو روکنے کے لئے سرحد پر باڑ لگانے کا کام 1952ء میں ہی شروع کر دیا تھا۔ تاہم جب یہ ہجرت نہ رک سکی تو1961ء میں دیورا برلن تعمیر کر دی گئی۔

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : افسر اعوان