1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعات

روہنگیا بحران، مودی نے سوچی کی حمایت کر دی

عاطف بلوچ، روئٹرز
6 ستمبر 2017

بھارتی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ نئی دہلی حکومت میانمار کے سکیورٹی تحفظات کو سمجھتی ہے۔ دوسری طرف عالمی برداری نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست راکھین میں روہنگیا مسلم کمیونٹی کے خلاف جاری ریاستی کریک ڈاؤن کو فوری بند کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/2jPpc
Indien Premierminister Modi Myanmars San Suu Kyi
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے اپنے دورہ میانمار کے دوران بروز بدھ آنگ سان سوچی سے ملاقات میں کہا ہے کہ بھارت میانمار کے سکیورٹی تحفظات کو سمجھتا ہے۔

سوچی نے خاموشی توڑ دی’’سب جھوٹ کا پلندہ ہے‘‘

گیارہ دنوں میں سوا لاکھ روہنگیا مہاجرین، بنگلہ دیش میں بحران

’پاکستان تو بنا ہی مسلم مہاجرین کے لیے تھا‘

بے وطن روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟

مودی نے کہا کہ راکھین میں ’انتہا پسندانہ تشدد‘ بند ہونا چاہیے۔

مودی نے کہا کہ اس تنازعے کے فریقین کو میانمار کے قومی اتحاد کا احترام کرنا چاہیے۔

راکھین میں مبینہ روہنگیا جنگجوؤں کے خلاف جاری ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سوا لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں.

اس صورتحال میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ روہنگیا کمیونٹی کے خلاف اس تشدد کے ’نسل کشی‘ کی جانب بڑھنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

 

بھارتی وزیر اعظم مودی کا  دورہ میانمار دراصل دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات میں وسعت دینے کی خاطر عمل میں لایا گیا ہے۔ خطے میں چین کی بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں بھارت میانمار کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری لانے کی کوششوں میں ہے۔ حالیہ برسوں کے ان دونوں ممالک کے مابین ہونے والی تجارت کے حجم میں بھی اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد سوچی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے ملک میں حملوں کے تناظر میں نئی دہلی حکومت کی مذمت پر وہ شکر گزار ہیں۔

سوچی کے مطابق اس صورتحال پر قابو پانے کی خاطر دونوں ممالک مل کر کام کریں گے۔ سوچی نے کہا، ’’ہمیں یقین ہے کہ ہم مل کر اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارے ملکوں میں دہشت گرد  پنپ نہ سکیں۔‘‘ اس موقع پر مودی نے کہا کہ  علاقائی سطح پر بھارت اور میانمار کے سکیورٹی تحفظات مشترکہ ہیں۔

ہندو قوم پرست سیاستدان مودی نے سوچی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’راکھین میں انتہا پسندانہ تشدد  بالخصوص سکیورٹی فورسز پر تشدد اور معصوم شہریوں کو ہونے والے نقصان پر پر ہم آپ کے تحفظات کو سمجھتے ہیں۔‘‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام فریقین مل کر ایک ایسا حل تلاش کر لیں گے، جس سے میانمار کی علاقائی خودمختاری اور اتحاد پر سمجھوتہ نہ ہو اور ساتھ ہی امن، انصاف، انسانی عظمت اور جمہوری اقدار کا فروغ ممکن ہو سکے۔

یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں تقریبا چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی پر مودی حکومت نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ نئی دہلی حکومت حالیہ برسوں کے دوران بھارت آنے والے ان روہنگیا افراد کو ملک بدر کرنے کا عہد کر چکی ہے۔ اس پیشرفت پر بھارت میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان شدید تنقید بھی کر چکے ہیں۔