1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بابری مسجد کے انہدام کی بائیسویں برسی

جاوید اختر، نئی دہلی6 دسمبر 2014

بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے انہدام کی بائیسویں برسی کے موقع پر آج ہفتے کے روز ملک بھر میں جلسے جلوس نکالے گئے اور فریقین نے اپنے اپنے دعووں کے حق میں مظاہرے کیے۔

https://p.dw.com/p/1E0Bu
تصویر: AFP/Getty Images

کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو ٹالنے کے لیے سکیورٹی فورسز ہائی الرٹ رہیں تاہم نصف صدی سے زیادہ پرانا یہ عدالتی معاملہ آسانی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے حکم پر 1527میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کے انہدام کی بائیسویں برسی پر آج ایودھیا کو جیسے کسی قلعے میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ نیم فوجی دستوں کے دس ہزار سے زائد جوان تعینات کیے گئے تھے، جنہوں نے مختلف علاقوں میں فلیگ مارچ کیا، تمام اہم شاہراہوں اور گلیوں میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے تھے۔ مسلمانوں نے آج کا دن یوم غم کے طور پر منایا جبکہ شدت پسند ہندوؤں نے اسے یوم شجاعت کے طور پر منایا۔
عشروں کی مقدمے بازی کے بعد جب 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ نے بابری مسجد کیس میں اس کی اراضی کو ہندوؤں، مسلمانوں اور رام للا تین فریقوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا تو ایک اور تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ اب یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ بابری مسجد کیس میں اہم فریق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت مسلمانوں کی طرف سے آٹھ اور ہندوؤں کی طرف سے چار مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کیے ہیں اور 42 ہزار صفحات پر مشتمل الگ الگ زبانوں میں جو دستاویزات ہیں، ان کے ترجمے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اس کیس کا جلد فیصلہ ہونے کی امید نہیں ہے۔
ادھر بابری مسجد کی ملکیت کے معاملے میں سب سے پرانے مدعی اور پچھلے 65 برسوں سے مقدمہ لڑنے والے ہاشم انصاری کے اس مقدمے سے دستبردار ہو جانے سے متعلق بیان کو سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرنے پر نیشنل میڈیا بالخصوص ہندی نیوز چینلز کی معتبریت پر ایک بار پھر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہاشم انصار ی نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 96 برس کی عمر میں عدالت کا چکر لگانا اب ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس کیس میں مختار نامہ اپنے بیٹے کے نام بنوا دیا ہے، جو اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کوشش کرتے رہیں گے۔

Bildergalerie 20 Jahre nach dem Herabreißen der Babri-Moschee
ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے انہدام کی بائیسویں برسی کے موقع پر آج ملک بھر میں جلسے جلوس نکالے گئےتصویر: AFP/Getty Images
Indien Ayodhya Urteil Moscheegelände wird geteilt
مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے حکم پر 1527میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کے انہدام کی بائیسویں برسی پر آج ایودھیا کو جیسے کسی قلعے میں تبدیل کردیا گیاتصویر: AP

ڈاکٹرقاسم رسول الیاس نے اس حوالے سے کہا، ’’اس وقت مقدمے کی نوعیت یہ ہے کہ کمیونٹی بمقابلہ ریاستی حکومت، کمیونٹی بمقابلہ مرکزی حکومت اور کمیونٹی بمقابلہ دیگر فریق ہے اور ہاشم انصاری نہ تو اس کیس سے دستبردار ہو رہے ہیں اور نہ ہی انہوں نے پرسنل لاء بورڈ سے اس طرح کی کوئی بات کہی ہے، لیکن اگر وہ اس کیس سے ہٹ بھی جاتے ہیں تب بھی اس کیس کی نوعیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
پچھلے دنوں ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما شنکرآچاریہ سوامی جیندر سرسوتی نے بابری مسجد تنازعے کے حل کے سلسلے میں مسلمانوں کے ایک اہم رہنما مولانا خالد رشید فرنگی محلی سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گیا تھا۔ جب ہم نے ڈاکٹر قاسم رسول الیاس سے پوچھا کہ کیا حکومت نے اس سلسلے میں ان سے بھی کوئی رابطہ کیا ہے، تو انہوں نے کہا، ’’حکومت کی طرف سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کوئی ایسا پیغام نہیں آیا ہے جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ حکومت سنجید ہ ہے یا وہ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر بات چیت حقائق کی بنیاد پر ہو، اگر بات چیت قانونی بنیاد پر ہو، یعنی جو دعویٰ کیا جائے اس کا ثبوت پیش کیا جائے، تب تو بات ہو سکتی ہے لیکن اگر بات چیت کی بنیاد آستھا ہو، بات چیت کی بنیاد ہٹ دھرمی ہو تو کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔‘‘
دریں اثنا یہاں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ بی جے پی حکومت کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہے اس لیے وہ رام مند ر کی تعمیر کے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے شدت پسند ہندوؤں کے دباؤ میں آ کر قانون میں ترمیم کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید