1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا: تباہ شدہ اسکولوں کی بحالی میں ناکامی

فرید اللہ خان، پشاور29 اکتوبر 2013

پاکستان کو صوبے خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے دوران عسکریت پسندوں کی طرف سے تباہ کر دیے جانے والے اسکولوں کی بحالی میں ناکامی کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1A7yi
تصویر: Front Line Media/Nek Amal

پاکستان کو صوبے خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے اب تک خیبر پختونخوا میں بارہ سو سے زائد جبکہ قبائلی علاقوں میں 750 اسکولوں کو بم دھماکے کر کے تباہ کیا ہے۔ اس دوران عالمی اداروں کی مدد سے اور حکومت کی جانب سے مجموعی طور پر تین درجن سکول بحال ہوئے جبکہ جزوی طور پر تباہ ہونے والے اسکولوں پر خصوصی توجہ دے کر انہیں طلباء و طالبات کے لیے کھولا جا چکا ہے۔

Mohsin Abbas Malala: A Girl from Paradise Dokumentation Pakistan
قبائلی علاقوں میں شرح تعلیم 24 فیصد سے آگے نہ بڑھ سکیتصویر: Front Line Media

فاٹا سیکرٹیریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق قبائلی علاقوں کے دو لاکھ کے قریب بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں سینکڑوں اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سے زیادہ تر مالاکنڈ ڈویژن میں تباہ کیے گئے۔ اس وجہ سے بچوں میں اسکول جانے کے رحجان میں کمی دیکھنے میں آئی۔

صوبائی حکومت نے اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کا رجحان دیکھتے ہوئے ایک خصوصی مہم کا اغاز کیا ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم کا دعویٰ ہے کہ یہ مہم کافی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”ہم نے پورے صوبے میں اس مہم کا آغاز کیا اور اس مہم کے نتیجے میں صوبے بھر میں دو لاکھ سے زیادہ بچے اسکول جانے لگے ہیں۔ ہم مستقبل میں بھی اسی طرح کی مہم جاری رکھیں گے۔ “

سال رواں کے دوران وفاقی حکومت نے قبائلی علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے پونے چار ارب روپے مختص کیے ہیں لیکن اس کے باوجود قبائلی علاقوں میں شرح تعلیم 24 فیصد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ان علاقوں کے ہزاروں طلباء و طالبات خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔

Anschlag auf Militärkonvoi mit Journalisten vor Mädchenschule
آج بھی خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں تعلیمی اداروں کو عسکریت پسند بم دھماکوں سے اڑا دیتے ہیںتصویر: dpa

آج بھی خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں تعلیمی اداروں کو عسکریت پسند بم دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ماہر تعلیم اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکن نگینہ خان پُراُمید ہیں کہ حکومتی اقدامات کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’مالاکنڈ ڈویژن میں تعلیمی اداروں کی بحالی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پہلے بھی مالاکنڈ میں شرح خواندگی بہتر رہی اور دہشت گردی کے خاتمے کے بعد اس میں مزید بہتری آ رہی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے دوران تمام اداروں اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن امن کی بحالی کے بعد اداروں کی بحالی کا کام شروع ہو چکا ہے۔

جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے فروغ اور شرح خواندگی میں اضافے کے لیے اربوں روپے خرچ کر رہی ہیں وہاں عالمی ادارے بھی قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں تعلیم کے فروغ اور شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔

ماہر تعلیم اور خیبر ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک خالد خان کا کہنا ہے کہ سابق دور حکومت کی جانب سے تعلیم کے فروغ کے لیے کئی موثر اقدامات کیے گئے جن میں نہ صرف نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا گیا بلکہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اساتذہ کو ترقی بھی دی گئی۔

موجودہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی دور کرنے کے ساتھ ساتھ اگر حکومت نے سرکاری اسکولوں میں یکساں نصاب رائج کرنے میں کامیابی حاصل کی تو تعلیمی صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال دہشت گردی اور سیلاب سے متاثرہ سکولوں کی بحالی کے لیے 6.7 ارب روپے مختص کیے تھے تاہم اس خطیر رقم سے بھی مطلوبہ اہداف پوری طرح حاصل نہ کیے جا سکے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید