1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میں نے بہن 300 ڈالر میں بیچ دی‘

امجد علی6 نومبر 2013

شامی خانہ جنگی کے باعث وطن چھوڑنے پر مجبور کوئی ڈیڑھ لاکھ شامی مہاجرین اردن میں پناہ گزین ہیں، جہاں کنواری لڑکیوں کی تلاش میں آنے والے عرب دنیا کے امیر شہری چند سو ڈالر کے عوض ان لڑکیوں کو شادی کر کے ساتھ لے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ADAh
تصویر: Moritz Wohlrab, Aktion Deutschland hilft

خبر رساں ادارے IPS نے اردن کے زاتاری کیمپ سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ دو سال پہلے یہ کیمپ محض پچاس ہزار افراد کے لیے بنایا گیا تھا تاہم اب یہاں اس سے تین گنا زیادہ افراد قیام پذیر ہیں۔ 3.3 کلومیٹر رقبے پر پھیلے اس مہاجر کیمپ میں خیموں کا ایک وسیع سمندر پھیلا نظر آتا ہے۔

اسی کیمپ کے ایک خیمے میں بائیس سالہ شامی لڑکی امانی بھی رہتی ہے، جسے دو مہینے پہلے خانہ جنگی کے باعث دمشق میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ وہ ایک خطرناک اور مصائب سے عبارت سفر کے بعد اردن کے اس کیمپ میں پہنچی، جہاں اُس کے والدین اور دو بہنیں ایک سال سے رہ رہی تھیں۔

شام کی دیگر بہت سی خواتین کی طرح امانی کی شادی بھی کم عمری ہی میں ہو گئی تھی۔ وہ پندرہ سال کی تھی، جب اُس نے اپنے خوابوں کے شہزادے کے ساتھ شادی کی۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ دمشق کے قدیم حصے کے ایک اپارٹمنٹ میں اپنے شوہر اور پانچ بچوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔

اردن میں شامی مہاجرین کے کیمپ کا ایک منظر
اردن میں شامی مہاجرین کے کیمپ کا ایک منظرتصویر: Save the Children

پھر اُس کے شوہر نے ہتھیار اٹھا لیے، باغیوں کے ساتھ جا ملا اور ایک بٹالین کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ امانی کے مطابق خود وہ بھی جنگی کارروائیوں میں شریک رہی۔ پھر لیکن اُن کا اپارٹمنٹ شامی فضائیہ کے ایک ہولناک حملے کی زَد میں آیا، جس میں اُس کا شوہر اور چار بچے مارے گئے۔ امانی صرف خود اور اپنی ایک چھوٹی بیٹی کو بچا پائی۔

امانی مشکلات سے عبارت سفر کے بعد دمشق سے زاتاری کیمپ پہنچ تو گئی ہے لیکن یہ کیمپ بذاتِ خود ایک ہولناک عقوبت خانہ ہے، جہاں لوگ ایک طرح سے پنجروں میں بند ہیں۔ ا یک خشک صحرائی علاقے کے بیچوں بیچ بنے اس کیمپ کو آئے روز ریت کے طوفانوں اور بیماریوں کا سامنا رہتا ہے۔ ان شامی مہاجرین کو بھوک اور سردی سے بچنے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

امانی اُن خوش قسمت مہاجرین میں سے ایک ہے، جنہیں کام میسر ہے۔ وہ ایک این جی او کے لیے کم از کم دس گھنٹے روزانہ کام کرتی ہے لیکن ایک ہفتے کے محض تین ڈالر کما پاتی ہے۔ اس رقم میں اُسے ایک بیمار ماں، بوڑھے باپ اور اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنی بڑی بہن، اُس کے شوہر اور اُن کے بچوں کی بھی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔

ان مشکل حالات کے دوران امانی نے اپنی چھوٹی بہت عمارہ کو بھی اسی این جی او میں ملازمت دلوا دی لیکن آمدنی میں دگنے اضافے سے بھی مالی مشکلات حل نہ ہو سکیں۔ ایسے میں فوری طور پر پیسہ حاصل کرنا کا ایک ہی راستہ تھا، جسے امانی سے پہلے کئی شامی مہاجرین اختیار کر چکے تھے اور وہ تھا، لڑکیوں میں سے کسی ایک کو فروخت کر دینا۔ امانی نے اپنی چودہ سالہ بہن عمارہ کو ایک طرح سے شادی کے بندھن میں باندھتے ہوئے رخصت کر دیا۔

شامی شہری کئی روز کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد سرحد پار کر کے اردن کے اس مہاجر کیمپ میں پہنچ پاتے ہیں
شامی شہری کئی روز کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد سرحد پار کر کے اردن کے اس مہاجر کیمپ میں پہنچ پاتے ہیںتصویر: Khalil Mazraawi/AFP/Getty Images

IPS سے باتیں کرتے ہوئے عمارہ کا کہنا تھا:’’شام میں سولہ سال کی عمر میں شادی ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ عرب دنیا کے بہت سے لوگ اس بات سے واقف ہیں اور اسی لیے کئی نوعمر دلہن لینے کے لیے شام کا رخ کرتے ہیں۔ آج کل وہ ان دلہنوں کی تلاش میں مہاجر کیمپوں میں آ رہے ہیں، جہاں سے تقریباً ہر فرد بھاگ جانا چاہتا ہے۔‘‘

امانی نے مزید بتایا:’’میں نے دیکھا ہے کہ یہاں اردن، مصر اور سودی عرب کے شہری آتے ہیں اور خیموں کے پاس سے گزرتے ہوئے کسی کنواری لڑکی کو تلاش کرتے ہیں۔ وہ تین سو ڈالر ادا کرتے ہیں اور اپنی خوابوں کی لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔‘‘

امانی کہتی ہے کہ اُس کے پاس اپنی بہن کو فروخت کر دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا:’’مَیں جانتی ہوں کہ اُسے (اپنے شوہر سے) محبت نہیں تھی لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ اُس کا خیال رکھے گا۔ مَیں خود کو بیچ دیتی لیکن ہمارے خاندان میں صرف عمارہ ہی کنواری تھی۔ ہمیں اپنی بقا کے لیے اُسے بیچنا پڑا۔ اور میں کیا کرتی؟‘‘

عمارہ کی شادی ایک سعودی شہری سے ہوئی، جو اُن کے خیمے کے پاس سے گزرا اور اُس نے عمارہ کے باپ سے اُس کا ہاتھ مانگ لیا۔ اس سعودی باشندے سے امانی پہلے ہی مل چکی تھی اور اُس نے اُسے اپنے خاندان کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ اُس کی چھوٹی بہن کی ابھی شادی نہیں ہوئی۔ امانی نے اپنی بہن کو بیچتے ہوئے کم از کم کچھ عرصے کے لیے اپنے خاندان کی مالی مشکلات پر قابو پا لیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید