1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتپاکستان

یونان میں ڈوبنے والے چار پاکستانیوں کی میتیں وطن پہنچ گئیں

22 جولائی 2023

درجنوں پاکستانی والدین کو ابھی تک نہیں معلوم کہ یونان میں ڈوبنے والے ان کے بچوں کی لاشیں یا باقیات کہاں ہیں؟ تاہم اب ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے چار لاشوں کی شناخت ممکن ہوئی ہے اور انہیں پاکستان واپس پہنچا دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4UG0U
Italien Sizilien, Trapani | Open Arms | Flüchtling, Todesopfer
تصویر: Sergi Camara/AP Photo/picture alliance

گزشتہ ماہ وسطی بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے سینکڑوں پاکستانیوں میں سے چار کی لاشیں جمعے کو ان کے آبائی وطن پہنچا دی گئی ہیں۔ 14 جون کو یونان کے ساحل پر ڈوبنے کے بعد ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے ان چاروں پاکستانیوں کی شناخت ممکن ہو سکی ہے۔

اس ڈوبنے والے جہاز میں تقریباً 350 پاکستانیوں سمیت کل 700 تارکین وطن سوار تھے۔ 12 پاکستانیوں سمیت صرف 104 افراد کو ہی زندہ بچایا جا سکا تھا۔

وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے صحافیوں کو بتایا کہ چاروں افراد کی باقیات کو لے جانے والے لکڑی کے تابوت پاکستانی دو پروازوں سے اتار کر اسلام آباد اور مشرقی شہر لاہور میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔

Bildergalerie | Griechenland Kalamata Schiffsunglück Flüchtlingsboot
12 پاکستانیوں سمیت صرف 104 افراد کو ہی زندہ بچایا جا سکا تھاتصویر: Stelios Misinas/REUTERS

پاکستانی نوجوان غیرقانونی طریقے سے باہر جانے پر مجبور کیوں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ مزید پاکستانیوں کی باقیات جلد ہی آنے کی توقع ہے۔ اس سانحے کے بعد پاکستان بھر میں غم کی لہر پھیل گئی تھی اور ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کے لواحقین ابھی تک اپنے رشتہ داروں کی میتیوں کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ان کی باقاعدہ اسلامی طریقے سے تدفین کی جا سکے۔

انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن

پاکستانی حکومت نے ان انسانی سمگلروں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جو غیرقانونی راستوں کے ذریعے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں ماہی گیروں والی کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچاتے ہیں۔

Griechenland Schiffsunglück
اس ڈوبنے والے جہاز میں تقریباً 350 پاکستانیوں سمیت کل 700 تارکین وطن سوار تھےتصویر: HELLENIC COAST GUARD/REUTERS

 تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں بیٹھے ایجنٹوں کے رابطے بیرون ملک موجود ایجنٹوں سے ہوتے ہیں اور یہ جان لیوا حادثات کے خطرات کے باوجود بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔

پاکستانی ادارے انسانی اسمگلنگ روکنے میں نا کام کیوں؟

ابھی تک پاکستانی پولیس اس کیس کے سلسلے میں کم از کم 17 مشتبہ اسمگلروں کو گرفتار کر چکی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ متاثرین نے اسمگلروں کو یورپ تک پہنچانے کے لیے پانچ ہزار سے آٹھ ہزار ڈالر کے درمیان رقم ادا کی تھی۔

دوسری جانب بین الاقوامی پانیوں میں ڈوبنے سے پہلے تارکین وطن کو بچانے کی کوشش نہ کرنے پر یونان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ایتھنز حکام کا کہنا ہے کہ مسافروں نے کسی قسم کی مدد  لینے سے انکار کرتے ہوئے اٹلی جانے پر اصرار کیا تھا۔

ا ا / ع ت (اے پی، روئٹرز)

یونان کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک پاکستانی کی کہانی