1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

افغانستان سے متعلق امریکا اور پاکستان میں پہلی بات چیت

24 ستمبر 2021

امریکی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ دنیا طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحد ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے دنیا کو افغانستان کو الگ تھلگ چھوڑنے کی اپنی غلطی دہرانی نہیں چاہیے۔

https://p.dw.com/p/40mZS
Deutschland | PK | Treffen US-Außenminister Antony Blinken mit Heiko Maas
تصویر: Michael Probst/AP Photo/picture alliance

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے 23 ستمبر جمعرات کے روز اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد امریکا کی جانب سے طالبان سے متعلق پاکستانی قیادت کے ساتھ یہ پہلی تفصیلی بات چیت تھی۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کی ویب سائٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی سے ان کی میٹنگ نیویارک سٹی کے پیلس ہوٹل میں ہوئی،جو تقریباً ایک گھنٹے تک چلی۔ گرچہ اس میں دو طرفہ امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا تاہم اس کا مرکزی موضوع طالبان اور افغانستان تھے۔

انٹونی بلینکن کا کیا کہنا تھا؟

اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے دنیا متحدہے۔ اس بیان سے قبل ہی انٹونی بلینکن نے چینی اور روسی وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی تھی جنہیں اب طالبان کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے جبکہ طالبان کے حوالے سے برطانیہ اور فرانس کے وزراء خارجہ سے وہ پہلے ہی مل چکے تھے۔

صحافیوں سے بات چیت کے دوران انٹونی بلینکن نے کہا کہ متعدد رہنماؤں سے بات چیت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ طالبان کے حوالے سے سبھی کا نقطہ نظر ایک ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''میرے خیال میں نقطہ نظر کے طور پر اور مقصد کے لحاظ سے بھی بہت مضبوط اتحاد پا یا جاتا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''طالبان کا کہنا ہے کہ وہ قانونی جواز چاہتے ہیں اور انہیں عالمی برادری سے مدد بھی درکار ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ ان کے تعلقات کس نوعیت کے رہیں گے، وہ اس بات پر منحصر ہے کہ ان کے اقدامات کیا ہوں گے۔''

USA UN Shah Mahmood Qureshi in New York
تصویر: Pakistan mission USA

انہوں نے اس موقع پر ایک بار پھر سے اس امریکی موقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان سے جو بھی نکلنا چاہتا ہے طالبان کو چاہیے کہ انہیں جانے دیں۔ انہیں خواتین، بچیوں اور اقلیتی طبقے کے حقوق کا احترام کرنے کے ساتھ ہی اپنی سر زمین کو القاعدہ جیسے انتہا پسند گروپوں کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ انٹونی بلینکن نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے بات چیت کے دوران مشترکہ، ''سفارتی مصروفیات کو مربوط کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔''

شاہ محمود قریشی نے کیا کہا؟

پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے ساتھ ہی افغانستان کے اثاثوں کو ان کے لیے بحال کرنے کا انتظام کرے۔ اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر کہا کہ افغانستان میں ایک جامع سیاسی تصفیے کے لیے پاکستان اپنے عزم پر قائم ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ طالبان نے جو وعدے کیے ہیں اس پر عمل در آمد کے لیے ضروری ہے کا بین الاقوامی برادری ان سے بات چیت جاری رکھے۔ انہوں نے کہا، ''دنیا افغانستان سے علیحدگی اختیار کرنے کی اپنی غلطی کو نہ دہرائے۔''

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں افغانستان میں انسانی بحران میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عالمی برادری کو اس مشکل گھڑی میں ان کی مدد کرنے کی بھی ذمہ داری لینی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر امریکی ہم منصب سے ملاقات کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ انٹونی بلینکن کے ساتھ ملاقات کے دوران امریکا کے ساتھ باہمی رشتوں کے حوالے سے ہم نے، ''تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور علاقائی روابط سے منسلک تعلقات پر توجہ مرکوز کی۔''

امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات سے عین قبل شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، '' ہمیں امن اور استحکام کے اپنے اس مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔''

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی)

’طالبان کو دھمکیاں دے کر کام لینا بہت مشکل ہے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں