1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں پہلی مرتبہ دوسری شادی پر سزا

عاطف توقیر
5 نومبر 2017

ایک پاکستانی عدالت نے پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی پر ایک شخص کو سزا سنا دی ہے۔ خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2n3Np
Pakistan Islamabad -  Muslimische Trauung: Bräutigam unterschreibt Ehevertrag
تصویر: Getty Images/AFP/B. Mehri

جوڈیشل مجسڑیٹ علی جواد نقوی نے لاہور کی ایک ذیلی عدالت میں ایک شخص کو پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی کرنے پر دو لاکھ روپے جرمانے اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔

پشاور، ’ہیلپ لائن سے رابطہ کرنے والی دردانہ کہاں گئی؟‘

جنگ زدہ شام: دو سہیلیوں کا ایک شوہر

شادی کے صرف تین دن بعد دلہن کا قتل، دلہے کا اعتراف جرم

پاکستان میں سن 2015 میں بننے والے فیملی لا کے تحت کسی شخص کو پہلی بیوی سے رضامندی لیے بغیر دوسری شادی کرنا ایک قابل تعزیر جرم ہے۔ اس مجرم کی اہلیہ عائشہ بی بی نے عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی کہ اس کے شوہر شہزاد ثاقب نے اس سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی کی۔

اپنی درخواست میں عائشہ بی بی نے موقف اختیار کیا تھا کہ دوسری شادی کے لیے اس کے شوہر کو ان سے اجازت لینا چاہیے تھی، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔

عدالت نے عائشہ بی بی کے شوہر کی جانب سے ان دلائل کو رد کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے اور دوسری یا دیگر شادیوں کے لیے پہلی بیوی سے اجازت کی ہدایات نہیں دیتا۔

انڈونیشیا: دوسری شادی کے لیے ایپ

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل، جس کا کام ملک میں قوانین کو مذہب سے مطابقت کے حامل بنانے سے متعلق حکومت کو تجاویز دینا ہے، اس قانون پر تنقید کر چکی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے تحریری اجازت لینا ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی قانونی اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر عمل درآمد کو لازم قرار نہیں دیتا۔

خواتین کے حقوق کی تنظمیوں اور کارکنوں نے اس عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ غیرسرکاری تنظیم پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی سربراہ رومانہ بشیر نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں کہا، ’’یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ متاثرہ خواتین قانون کا استعمال کر کے عدالت میں شکایات جمع کرا سکتی ہیں۔ اس سے خواتین کے حقوق کی صورت حال میں بہتری پیدا ہو گی۔‘‘

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک اور تنظیم پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف ویمن کی سربراہ فوزیہ وقار نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ ’’یہ فیصلہ ایک اچھی روایت قائم کرے گا۔ اس سے ایک سے زائد شادیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور خواتین کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ ایسی صورت میں عدالت سے رجوع کریں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ ایک سے زائد شادیوں کا رواج پاکستان میں عام نہیں ہے۔ اس حوالے سے اعداد و شمار تو موجود نہیں، مگر ایک غیرنفع بخش تحقیقی تنظیم ادارہ برائے پالیسی اسٹڈیز کے مطابق ایک سے زائد شادیوں کے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق دوسری شادی کے واقعات شہری علاقوں میں بہت کم دیکھے گئے ہیں۔