1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی بوجھ، رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل

عاطف بلوچ مانسی گوپالا کرشنن
2 اگست 2019

شمالی بھارت کےایک علاقے میں مائیں صرف لڑکوں کو ہی جنم دیے رہی ہیں۔ یوں یہ شک ہو چلا ہے کہ وہاں بچیوں کی جنس کا علم ہونے کے بعد والدین انہیں رحمِ مادر میں ہی قتل کر دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3NEp3
Indien Krankenhaus Pune
تصویر: DW/K.Keppner

شمالی بھارت کے ایک علاقے میں گزشتہ تین ماہ کے دوران پیدا ہونے والے تمام لڑکے ہی تھے۔ ایک سروے سے یہ شک ہوا ہے کہ اتراکھنڈ کی ریاست کے متعدد گاؤں میں بچی کی جنس کا علم ہونے کے بعد انہیں پیدائش سے قبل ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ ناقدین نے اس گھناؤنے عمل کے لیے پدرانہ سوچ اور ٹیکنالوجی کو قصور وار قرار دیا ہے۔

ہمالیہ کے دامن میں واقع ریاست اتراکھنڈ سخت موسموں کی حوالے سے مشہور ہے۔ وہاں خواتین روزمرہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گھر کے کام کے علاوہ وہ علاقائی معیشت میں بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم پدرانہ سوچ کے باعث اس ریاست میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔

بچیوں کی شرح پیدائش میں کمی

بھارت میں سن 2011 میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق اتراکھنڈ میں لڑکیوں کی پیدائش کے عمل میں واضح کمی نوٹ کی گئی ہے۔

ایک حکومتی سروے کے مطابق اس ریاست کے 132 گاؤں میں گزشتہ تین مہینے کے دوران 214 بچے پیدا ہوئے، جن میں سے ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔

اتراکھنڈ میں ریاستی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن وجے بارتھوال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر معلومات موصول ہوئی تھیں کہ ان دیہات میں کچھ لڑکیاں بھی پیدا ہوئی تھیں لیکن ان اعدادوشمار کی پڑتال کی ضرورت ہے۔

تاہم کچھ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش نہ ہونے کی وجہ دراصل ان کی جنس کا علم ہونے کے بعد رحم مادر میں ان کا قتل ہے۔ 

 

لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت

خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک صرف اتراکھنڈ کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ کئی ہمسایہ ریاستوں میں بھی یہ مسئلہ شدید ہے۔ بھارتی معاشرے میں لڑکوں کو وارث تصور کیا جاتا ہے۔

اس قدامت پسند معاشرے میں مذہبی روایات بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ خیال عام ہے کہ اگر بیٹا والدین کی چتا کو آگ دیتا ہے اور اس کی استھیاں دریائے گنگا میں بہاتا تو وہ جنت میں ہی جائیں گے۔

بھارتی شہر رانچی کے ژاویئر انسٹی ٹیوٹ برائے معاشرتی علوم سے وابستہ ماہر سماجیات پرمل کمار پانڈے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت میں خواتین کو مردوں کا ماتحت سمجھا جاتا ہے۔

پرمل کمار پانڈے کا کہنا ہے، ''بچیوں کو ہمیشہ ہی دوسرے گھر کی جائیداد سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ سوچا ہی نہیں جاتا کہ وہ بھی کنبے کی جائیداد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔‘‘

ٹیکنالوجی بھی ذمہ دار

صحافی اور اتراکھنڈ کی ثقافتوں اور زبانوں پر کئی کتب کے مصنف جئے سنگھ راوٹ کے مطابق اقتصادی ترقی نے اس ریاست کے صنفی مسائل کو دوچند کر دیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ اس ریاست میں مرد شادی کرنے کی خاطر 'بیوی کی قیمت‘ لگاتے تھے جبکہ اب یہ مرد اور ان کے گھرانے شادی کی خاطر بڑے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وجوہات ہیں کہ ایسے گھرانوں پر اقتصادی بوجھ بڑھ گیا ہے، جہاں بچیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے لوگ مجبور ہیں کہ وہ جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کرا لیں۔

 

راوٹ کے بقول علاقائی انفراسٹرکچر میں بہتری کی وجہ سے ذرائع آمدورفت بھی بہتر ہوئے ہیں، اس لیے لوگ چھوٹے چھوٹے دیہات سے نکل کر شہروں میں جاتے ہیں اور نامولود بچوں کی جنس معلوم کرنے کی غیرقانونی کوشش کرتے ہیں اور لڑکی ہونے کی صورت میں حمل گروا دیتے ہیں۔

جیے سنگھ راوٹ نے مزید بتایا کہ کچھ کیسوں میں موبائل الٹرا ساؤنڈ مشینیں دیہات میں کچھ دنوں کے لیے لائی جاتی ہیں اور پہلے سے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے بچے کی جنس معلوم کرنا ہے تو وہ بکنگ کروا لیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تمام مرحلے میں طبی اہلکار اپنا کمیشن لیتے ہیں۔

الٹرا ساؤنڈ کی مدد سے جب والدین کو اپنے نامولود بچوں کی جنس کا علم ہوتا ہے تو لڑکی ہونے کی صورت میں وہ قریبی شہر جا کر دنیا میں آنے سے قبل ہی بچی کو مادر رحم میں قتل کر دیتے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق غریب خاندان اس غیرقانونی کام کی خاطراکثر قرض بھی لیتے ہیں۔

سماجی رویے صنفی امتیاز کا باعث

سن 2013 میں شائع کردہ ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق 'بیٹوں کو ترجیح‘ دینے کا رویہ پیدا ہونے والی بچیوں کی کم عمری میں ہلاکت کا باعث بھی بنتا ہے۔

پاپولیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت میں سن 2000 تا سن 2014 جنس کی بنیاد پر ہونے والے اسقاط حمل کے کیسوں کی تعداد کم ازکم ایک کروڑ ستائیس لاکھ رہی۔

بھارت میں جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل غیرقانونی ہے۔ اس تناظر میں کئی قوانین منظور کیے گئے اور قواعد و ضوابط بنائے گئے لیکن یہ مسئلہ ابھی تک برقرار ہے۔

معاشرتی امور کے ماہر پرمل کمار کے مطابق خواتین کے بارے میں سماجی رویوں میں تبدیلی میں طویل وقت درکار ہو گا، اسی لیے تحفظ خواتین کے لیے بنائے گئے قوانین مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں