1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ

10 اگست 2018

پاکستان میں اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر لاہور میں اقلیتوں کے ایک نمائندہ کنونشن میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فی الفور اقلیتیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک با اختیار قومی کمیشن قائم کرے۔

https://p.dw.com/p/32z9b
Pakistan Lahore Minderheiten Kongress
تصویر: DW/T. Shahzad

کنونشن میں منظور کی جانے والی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اس کمیشن کو پاکستان بھر میں موجود تمام اقلیتوں کے حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے اور اسے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی نگرانی کرنی چاہیے۔ قرار داد کے مطابق اس کمیشن کے ذمے یہ کام بھی ہونا چاہیے کہ یہ اقلیتوں کے حالات کا جائزہ لے کر اس سے متعلقہ پالیسیوں میں بہتری کے لیے تجاویز پیش کرے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف نے اس کنونشن کا اہتمام قومی کمیشن برائے امن و انصاف اور ’سیسل فاونڈیشن‘ کے اشتراک سے اقلیتوں کے قومی دن کی مناسبت سے کیا تھا۔ اس کنونشن سے خطاب کرنے والوں میں ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے سیاسی رہنما، اراکان پارلیمنٹ، سول سوسائیٹی کے نمائندے اور اقلیتی تنظیموں کے عہدیدار شامل تھے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اس کنونشن کے منتظم پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے کئی مرتبہ عالمی فورموں پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کمیشن بنانے کے دعوے کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’سن 2012 اور 2017 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت کے حصول کے لیے انتخابات سے قبل نیویارک (امریکا) میں حکومت پاکستان نے تحریری طور پر دعویٰ کیا کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جا چکا ہے۔ جو مذہبی اقلیتوں کی شکایات سننے اور کمیشن میں اقلیتی اراکان کی نمائندگی یقینی بنانے کا اختیار رکھتا ہے۔‘‘ پیٹر جیکب کے بقول پاکستانی حکومت کا یہ دعوی اس لیے حقیقت پر مبنی نہیں ہے کہ پاکستان میں اس کمیشن کا نام تک کبھی کسی نے نہیں سنا جب کہ قومی کمیشن برائے حیثیت نسواں اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی کارکردگی توعوام کی نظروں سے گزرتی رہتی ہے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف نے اس کنونشن کا اہتمام اقلیتوں کے قومی دن کی مناسبت سے کیا تھا۔تصویر: DW/T. Shahzad

پیٹر جیکب کے بقول سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اسلام آباد حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قومی کمیشن یا قومی کونسل کی تشکیل سے متعلق مسودہ قانون پارلیمان میں متعارف کروانے میں ناکام رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے بعض ارکان نے انفرادی حیثیت میں اس کمیشن کے قیام کے لیے جو پرائیویٹ بل سن 2015 اور 2016 میں پیش کیے تھے، ان مسودوں پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

کنونشن کے منتظم پیٹر جیکب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت 1990ء سے ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے قائم کی گئی ایک ایسی عبوری کمیٹی کو قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت کا نام دیتی رہی ہے جس کا کوئی واضح مینڈیٹ ہے اور نہ ہی کوئی دفتر یا عملہ۔ اس کمیشن کو اقلیتوں کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی مسئلے پر کبھی متحرک نہیں دیکھا گیا۔

کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اعجاز احمد چوہدری اور ولید اقبال کا کہنا تھا کہ اگلے چند دنوں میں ممکنہ طور پر برسر اقتدار آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے منشور میں اقلیتوں کے مسائل کے حل کا وعدہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ تحریک انصاف کی حکومت یہ کمیشن ضرور قائم کرے گی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما عامر حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اقلیتوں کے حقوق کے  لیے کام کیا۔ ان کے بقول اقلیتوں کے حقوق کے تحفط کے لیے موثر کوششوں کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے خود اقلیتوں کو بھی اپنی جدوجہد تیز کرنا ہو گی۔

معروف مسیحی رہنما بشپ الگزینڈر جان ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اقلیتیں پاکستان سے پیار کرتی ہیں اور ان کے بزرگوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان کی اقلیتیں ان تمام گروہوں اور لوگوں کے خلاف ہیں جو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ پاکستان کی اقلیتوں کے خلاف کام کرنا ایک طرح سے پاکستان کے خلاف کام کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے کسی کو یہ اجازت نہیں ملنی چاہیے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے اقلیتوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔‘‘

اس کنونشن سے لاہور کے میئر کرنل (ر) مبشر جاوید،نیدر لینڈ ز کے سفارتخانے کی ڈپٹی ہیڈ آف مشن جوزفین فرینٹزن، جماعت اسلامی کے رہنما امیرالعظیم، ممتاز ماہر قانون ثاقب جیلانی اور سکھ رہنما کلیان سنگھ نے بھی خطاب کیا۔

کنونشن میں منظور کی جانے والی قرارداد میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے نئے قوانین بنانے، بعض پرانے امتیازی قوانین میں ترمیم کرنے، 19 جون 2014 کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے، تعلیمی نظام میں رواداری کو فروغ دینے اور اقلیتوں کے لیے مختص ملازمت کوٹہ پر موثر عملدرآمد کروانے کے مطالبات بھی کیے گئے۔

انتخابات اور پاکستانی اقلیتیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں