1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن لادن کے آخری لمحات، ابھی ایک سربستہ راز

16 مارچ 2012

اسامہ بن لادن کا تعاقب تقریباً ایک عشرے تک جاری رہا تاہم یہ جاننے میں اِس سے کہیں زیادہ وقت لگ سکتا ہے کہ امریکی نیوی سیلز کے ایک ایلیٹ یونٹ کے ہاتھوں دُنیا کے اِس سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کی موت کن حالات میں ہوئی۔

https://p.dw.com/p/14LPb
تصویر: AP

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق القاعدہ کے سربراہ کی ہلاکت کے دَس مہینے بعد اُن حکومتی ای میلز، منصوبہ بندی رپورٹوں، تصاویر اور اُس دیگر مواد تک پہنچنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے، جس کی روشنی میں بن لادن کے آخری لمحات کی تفصیل سامنے آ سکے۔

جائزے کے مطابق امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ شفاف انتظامیہ ہونے کی دعویدار اوباما انتظامیہ بن لادن کی موت سے متعلق اُن دستاویزات کو منظر عام پر لانے سے انکار کر رہی ہے، جن سے یہ پتہ چل سکتا ہو کہ امریکی فوج کے اِس خصوصی یونٹ نے اُسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق کیسے کی اور کن حالات میں اُس کی لاش کی سمندر میں تدفین کا فیصلہ کیا گیا۔ اِس کے علاوہ وہ تصاویر سامنے لائی جانی چاہییں، جو مئی 2011ء کے اس خصوصی مشن کے دوران اور اُس کے بعد پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں واقع بن لادن کے رہائشی کمپاؤنڈ میں اُتاری گئیں۔

پاکستانی شہر ایبٹ آباد کا وہ رہائشی کمپاؤنڈ، جہاں بن لادن امریکی سیلز کی کارروائی میں مارا گیا
پاکستانی شہر ایبٹ آباد کا وہ رہائشی کمپاؤنڈ، جہاں بن لادن امریکی سیلز کی کارروائی میں مارا گیاتصویر: Reuters

امریکہ کے حکومتی عہدیداروں نے اپنی تقاریر، انٹرویوز اور ٹی وی چینلز کے ساتھ اپنی بات چیت میں کھلے عام اس مشن پر باتیں کی ہیں لیکن اوباما انتظامیہ نے ایسی کوئی دستاویزات جاری نہیں کیں، جن سے اُس رات پیش آنے والے مبینہ واقعات کی تصدیق ہو سکے۔ اوباما انتظامیہ نے تو ابھی اِس راز پر سے بھی پردہ نہیں اٹھایا ہے کہ یہ ساری دستاویزات رکھی کہاں گئی ہیں۔

گزشتہ برس ایسی کئی درخواستیں حکومت تک پہنچی ہیں، جن میں بن لادن سے متعلق معلوماتی مواد جاری کرنے کو کہا گیا ہے۔ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ (FOIA) کے تحت حکومت اِس بات کی پابند ہے کہ اگر قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اور کسی کی ذاتیات پر حرف نہ آتا ہو تو وہ کسی کو بھی مفت یا کم معاوضے کے بدلے وفاقی حکومت کے ریکارڈ کی نقول فراہم کرے۔ امریکی میڈیا میں اس قانون کو گزشتہ اتوار سے مرکزی اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ تب سے امریکی خبر رساں اداروں میں سن شائن وِیک کا آغاز ہوا ہے اور شفاف حکومت اور معلومات کی آزادی کے حق کی وکالت کی جا رہی ہے۔

صرف ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے ہی ایبٹ آباد مشن سے متعلق پیش کردہ درخواستوں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے، جن میں سے زیادہ تر بن لادن کی موت کے اگلے ہی روز پیش کر دی گئی تھیں۔ جواب میں امریکی محکمہء دفاع کی جانب سے رواں مہینے اے پی کو بتایا گیا کہ پینٹاگان کو ایسی کوئی تصاویر یا ویڈیو نہیں مل سکی ہے، جو اِس مشن کے دوران تیار کی گئی ہو یا جس میں بن لادن کی لاش نظر آتی ہو۔ اسی طرح امریکی محکمہء دفاع نے یہ بھی کہا کہ اُسے نہ تو کوئی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ملا ہے، نہ کوئی پوسٹ مارٹم رپورٹ، نہ ہی کسی ڈی این اے معائنے کے نتائج اور نہ ہی ایسی کوئی دستاویزات، جن سے یہ پتہ چل سکے کہ بن لادن کی موت کی صورت میں حکومت نے اُس کی لاش کو کس طرح سے ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

امریکی محکمہء دفاع کا کہنا ہے کہ اُسے ایسی کوئی تصاویر یا ویڈیو نہیں مل سکی، جو ایبٹ آباد مشن کے دوران یا اُس کے بعد بنائی گئی ہو
امریکی محکمہء دفاع کا کہنا ہے کہ اُسے ایسی کوئی تصاویر یا ویڈیو نہیں مل سکی، جو ایبٹ آباد مشن کے دوران یا اُس کے بعد بنائی گئی ہوتصویر: AP

جہاں ایسوسی ایٹڈ پریس نے حکومت کو تصاویری مواد جاری کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کیا، وہاں ’جوڈیشل واچ‘ نامی ایک ادارہ اوباما انتظامیہ کے خلاف عدالت بھی جا پہنچا ہے۔ اِس مقدمے کی کارروائی کے دوران وفاقی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ سی آئی اے کے پاس بن لادن کی لاش اور سمندر میں اُس کی تدفین کی پچاس سے زیادہ تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔

جہاں تک اوباما انتظامیہ کا سوال ہے، بن لادن کی موت کا باب بند ہو چکا ہے تاہم بن لادن کے آخری لمحات سے متعلق زیادہ سے زیادہ تفصیلات اور تصاویر سامنے لانے کے لیے خبر رساں اداروں اور کئی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے اوباما انتظامیہ پر دباؤ برقرار ہے۔

رپورٹ: امجد علی (ایسوسی ایٹڈ پریس)

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید