1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاریخ کے گھنٹہ گھر پر بیٹھا گیانی دھیانی

10 جولائی 2021

بات ذرا تلخ ہے، مگر مان لینا چاہیے کہ ہم سیاسی بے راہ روی کے شکار لوگ ہیں۔ اس بے راہ روی پر خدا نے پھر ہمیں اطمینان بھی عطا کر دیا ہے۔ فرنود عالم کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3wItV
فرنود عالمتصویر: Privat

ہماری اجتماعی فکر، شعوری یا غیر شعوری طور پر آج بھی طاقت کو دلیل مانتی ہے۔ ہم علم اور اخلاق پر مذہب کے اجارے کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ ثقافت پر عقیدوں کے پہرے بٹھاتے ہیں۔ فرد کی زندگی میں مداخلت کو اپنا پیدائشی حق گردانتے ہیں۔ نظریوں کی بنیاد پر تفریق روا رکھتے ہیں۔ حکومت اور ریاست میں کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ جرم اور گناہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔ مذہبی عقیدے اور سیاسی موقف کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ مذہب اور تہذیب جیسے الفاظ ایک ہی سانس میں ادا کرتے ہیں۔ اکثریت کے استبداد کو روحانی جمہوریت کہتے ہیں۔ دوسرے کی دُم پر پاؤں رکھنے کو اسلامی سیکولرازم کہتے ہیں۔ کشیدگی اور تنازعے کو سفارت کاری کہتے ہیں۔ بالادست عقیدے کی ہاں میں ہاں ملانے کو مکالمہ بین المذاہب کہتے ہیں۔ جبر کے سیاسی بیانیے کے تسلیم ہوجانے کو رواداری کہتے ہیں۔ تنقیدی مطالعے کو گستاخی قرار دیتے ہیں اور فتوے کو بہت سہولت سے رائے کہہ دیتے ہیں۔

ہمارا نصاب تعارف نہیں کرواتا، رائے دیتا ہے۔ ہمارا آئین عقیدوں میں غلطی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ٹھیک اور غلط کی بجائے ہم حلال حرام کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ جمہوری غیر جمہوری کی بجائے اسلامی غیر اسلامی کے تناظر میں معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ایک بھاڑ ہم نظریاتی سرحد کی بھی بچھاتے ہیں۔ ادارہ جاتی مفاد کو قومی مفاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، مگر دو قومی نظریے کو قیامت کی صبح تک زندہ بھی رکھتے ہیں۔ ہم برابری کے پرچارک ہیں، مگر اکثریت و اقلیت کی تقسیم کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ یکساں حقوق کا ہم کو دعویٰ ہے، مگر صنف اور جنس کی بنیاد پر حیثیتوں کا تعین بھی کرتے ہیں۔ پڑوسی ممالک کی بجائے برادر اسلامی ملک جیسی اصطلاح ایجاد کرتے ہیں، پھر انہی اسلامی ممالک کے ساتھ اینٹ کتے کا بیر بھی رکھتے ہیں۔ جو پڑوسی اسلامی نہیں ہوتے ان کے ساتھ تعلق کی پیمائش ہمالیہ سے بلند بتاتے ہیں۔

ہم دراصل کچھ نہیں کرتے، ہم تو بس کمال کرتے ہیں۔

ہمارے اِس حُسنِ تضاد سے جن المیوں نے جنم لیا ہے اس کی بدترین صورتوں کا ہمیں ان دنوں سامنا ہے۔ سچائی کی نشاندہی کیجیے تو قومی مفاد خطرے میں پڑجاتا ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلق کی کوشش کریں تو قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ علاقائی حقوق کی بات کیجیے تو ملک تاریخ کے نازک ترین موڑ سے موڑ کاٹنے لگ جاتا ہے۔ رواداری اور برداشت پر اصرار کیجیے تو اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔ لے دے کر انسان کے پاس سوال رہ جاتا ہے، مگر سوال اٹھائیے تو یہاں ہتھیار اٹھالیے جاتے ہیں۔ گاہے سوال اٹھانے والے ہی اٹھالیے جاتے ہیں۔ محض فقرہ نہیں ہے، یہ ہماری روشن تاریخ ہے۔ 1948ء سے چلنا شروع کیجیے اور سال 2018ء کے انتخابات والے دن کی طرف آئیے۔ دائیں اور بائیں دو طرح کے رہنماؤں، اساتذہ اور دانشوروں کی قطار ملے گی۔ ایک وہ ہیں جو امن کے معلوم علمبر دار تھے اور دوسرے وہ جو دھونس اور تسلط پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے بیانیوں اور اظہاریوں میں امن کے یہ سارے پرچارک غدار ہیں اور تشدد کے پیروکار زمین پر خدا کی آخری نشانی ہیں۔

 فکر کے دھاگوں کو یوں الجھا ہوا دیکھ کر ایک حساس شہری کے دماغ میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں۔ ہماری فکر جو بے فکری سے دریائے سندھ کے کنارے ٹہل رہی تھی، اس کی لاش بحیرہِ مردار سے کیسے برامد ہوئی؟ تاریخ کی وہ کون سی شاہراہ تھی جس پر اندھیر نگری کی طرف نکلنے والی گلی پر چاندنی چوک کا اشارہ نصب تھا؟ یہ اشارہ رات کی تاریکی میں طاقت کے کون سے مراکز نے نصب کیا تھا؟ کھیلنے والوں نے ہمارے جذبات اور ہماری نفسیات کو قومی کھیل کب اور کیسے بنایا؟ جو ہوا سو ہوا، مگر اب اندھیر نگری سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟ بستی میں رہنے والوں نے غلط کو درست مان لیا ہے، اب راستہ کس سے پوچھیں؟

الجھن کی سلجھن کچھ ایسی مشکل نہیں ہے۔ اڑچن مگر یہ ہے کہ پہنچنا ہم نے لائل پور ہے اور بورڈ پر اب فیصل آباد لکھا ہے۔ راستہ سامنے ہی ہے، مگر یہاں وہاں بھٹکے جارہے ہیں اور سیانے ہم پر ہنسے جارہے ہیں۔ یہی فیصل آباد والا راستہ لیجیے، لائل پور ہی پہنچیں گے۔ بدھا جیسی خاموشی اوڑھے ایک گیانی دھیانی وہاں تاریخ کے گھنٹہ گھر پر بیٹھا انتظار کر رہا ہے۔ آسان الفاظ میں اسے قاسم یعقوب کہتے ہیں۔ ان کے پاس کچھ اوراق ہیں جن پر ''طاقت اور سماج‘‘ کا عنوان درج ہے۔ لیجیے اور خاموشی سے گھر لے جائیے۔ بھٹکے ہوئے احساس کو کوئی سوال پریشان کرے تو یہ اوراق کھول کر بیٹھ جائیے۔ سیدھے راستے اور ٹھیک راستے کا فرق معلوم ہوگا۔