1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمن رویہ ناقابل قبول: وجہ اوزاِل کا مذہب ہے‘، صدر ایردوآن

24 جولائی 2018

ترک نژاد جرمن فٹبالر میسوت اوزاِل کے حوالے سے جرمنی میں جاری شدید بحث میں اب ترک صدر ایردوآن بھی بول پڑے ہیں۔ ایردوآن نے جرمنی کے رویے کو ’نسل پرستانہ اور ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے اس معاملے کو مذہب سے بھی جوڑ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/321FI
میسوت اوزاِل کی ترک صدر ایردوآن کے ساتھ مئی میں لندن میں لی گئی تصویر، جو تنقید کی وجہ بنیتصویر: picture-alliance/dpa/Presidential Press Service

ترکی کے دارالحکومت انقرہ سے منگل چوبیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن نے ترک پارلیمان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میسوت اوزاِل کی طرف سے جرمن قومی فٹبال ٹیم سے علیحدگی کے اعلان کے بعد سے ان کے بارے میں جو رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ ’نسل پرستانہ اور ناقابل قبول‘ ہے۔

ساتھ ہی ترک صدر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے پیر تئیس جولائی کی رات ٹیلی فون پر میسوت اوزاِل سے گفتگو بھی کی اور اس سٹار فٹبالر کے کردار کو سراہتے ہوئےان کی بہت تعریف بھی کی۔ اس کے علاوہ صدر ایردوآن نے یہ بھی کہا کہ اوزاِل کے ناقدین اس کھلاڑی کی صدر ایردوآن کے ساتھ اس تصویر کو ’ہضم نہیں کر سکے‘، جس کی وجہ سے روس میں ورلڈ کپ مقابلوں کے آغاز سے پہلے ہی اوزاِل پر تنقید شروع کر دی گئی تھی۔

ایردوآن مذہب کو بیچ میں لے آئے

میسوت اوزاِل نے صدر ایردوآن کے ساتھ یہ تصویر مئی کے وسط میں لندن میں اتروائی تھی، جب ترک سربراہ مملکت کے دورہ لندن کے دوران دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ یہی فوٹو بعد میں ایک طویل بحث کی وجہ بن گئی تھی، جس کے نقطہ عروج پر اتوار بائیس جولائی کی رات اوزاِل نے اپنے ناقدین پر ’نسل پرستانہ رویوں‘ کا الزام لگاتے ہوئے جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

اس موضوع پر انقرہ کی پارلیمان میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ایردوآن نے کہا، ’’ایک ایسے نوجوان کھلاڑی پر، جس نے اپنی بہترین صلاحیتیں جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم کے لیے استعمال کیں، اس کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے نسل پرستانہ رویہ ناقابل قبول ہے۔‘‘ ایردوآن نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ، خود اپنے مطابق، جرمنی میں اوزاِل پر تنقید کو بطور مذہب اسلام کے ساتھ جڑا ہوا کیسے دیکھتے ہیں۔

اوزاِل کے آبائی ترک قصبے کا فیصلہ

میسوت اوزاِل جرمنی میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن ترکی میں جس آبائی قصبے سے ان کے والدین کا تعلق تھا، وہاں کے مقامی حکام نے اب ایک سڑک پر ایک ایسا بورڈ بھی لگا دیا ہے، جس میں اوزاِل کی وہ تصویر دیکھی جا سکتی ہے، جو انہوں نے لندن میں صدر ایردوآن کے ساتھ اتروائی تھی۔ اس سے پہلے اسی ترک قصبے میں ایک ایسا روڈ سائن بورڈ لگایا گیا تھا، جس میں اوزاِل کی ایک ایسی تصویر استعمال کی گئی تھی، جس میں وہ جرمن ٹیم کے ایک کھلاڑی کے طور پر اپنی کِٹ پہنے ہوئے تھے۔ اب لیکن وہ تصویر بدل دی گئی ہے۔

اسی دوران میسوت اوزاِل کی ذات سے متعلق اور جرمنی میں بڑی جذباتی بحث کی وجہ بن جانے والے اس معاملے میں اب ترک فٹبال فیڈریشن بھی بول پڑی ہے۔ ٹرکش فٹبال فیڈریشن کے صدر یلدرم دیمیرورن کے مطابق، ’’ہم ان رویوں، دھمکیوں اور ہتک آمیز پیغامات کی مذمت کرتے ہیں، جن کا ہدف یہ کھلاڑی اپنی میراث اور پس منظر کی وجہ سے بنا۔‘‘

جرمن فٹبال فیڈریشن کے صدر کے استعفے کا مطالبہ

ادھر جرمن فٹبال فیڈریشن نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ جرمنی میں فٹبال میں کسی بھی سطح پر نسل پرستی یا نسل پرستانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی اس تنظیم نے اوزاِل کے جرمن فٹبال ٹیم سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔

دریں اثناء جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور ترک تارکین وطن کے پس منظر کے حامل سیاستدان چَیم اوئزدیمیر نے بھی مطالبہ کر دیا ہے کہ جرمن فٹبال فیڈریشن کے صدر رائن ہارڈ گرِنڈل کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

چَیم اوئزدیمیر جرمنی کے اہم ترین ترک نژاد سیاسی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ اوئزدیمیر کے بقول جرمن فٹبال فیڈریشن کے صدر گرِنڈل نے روس میں منعقدہ حالیہ فیفا ورلڈ کپ سے دفاعی عالمی چیمپئن کے طور پر جرمنی کے گروپ مرحلے ہی میں اخراج کا ذمے دار میسوت اوزل کو ٹھہرایا تھا۔

م م / ع ح / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید