1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمجرمنی

جرمنی میں تانبے کی چوری میں اضافہ، کروڑوں یورو کا نقصان

27 ستمبر 2023

جرمنی میں جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے ایک قیمتی دھات کے طور پر تانبے کی چوری کے واقعات میں واضح اضافہ ہو چکا ہے۔ تانبے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر ان واقعات کی وجہ سے نقصانات کی مالیت اور زیادہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4WsNT
ہیمبرگ میں جرمن صنعتی ادارے آؤرُوبِس کا تیار کردہ تانبہ
تانبہ تیار کرنے والے جرمن صنعتی ادارے آؤرُوبِس کا تقریباﹰ دو سو ملین یورو کا تابہ چور ہو گیاتصویر: Bodo Marks/dpa/picture alliance

یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے والے جرمنی میں تانبے کی چوری کا یہ رجحان عوامی اور کاروباری دونوں سطحوں پر تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔

جرمنی کی سب سے بڑی ریل کمپنی ڈوئچے بان کے لیے تو ایسے مجرمانہ واقعات کافی عرصے سے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ڈوئچے بان جزوی طور پر سرکاری ملکیت میں بھی ہے اور اس ادارے کو کئی برسوں سے اپنے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانے کی ضرورت بھی ہے۔

برلن کے وکٹری کالم سے تانبے کی پلیٹیں چوری، کسی کو پتہ بھی نہ چلا

جرمنی کے اقتصادی جریدے 'ہانڈلزبلاٹ‘ کے مطابق صرف 2022ء میں ہی ڈوئچے بان کو تانبے کی چوری کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے 6.6 ملین یورو کا نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ چوری کے ان واقعات کے سبب اس ریل کمپنی کے انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کے باعث ملک بھر میں 2,644 ریل گاڑیوں کی آمد و رفت اس حد تک تاخیر کا شکار ہو گئی کہ اس تاخیر کا مجموعی دورانیہ 700 گھنٹوں سے زیادہ بنتا تھا۔

ریل تنصیبات کی حد تک جرائم پیشہ گروہ تانبے کی چوری زیادہ تر اس طرح کرتے ہیں کہ وہ بہت سی موٹی موٹی تاروں کی وائرنگ کاٹ کر اس میں سے تانبہ نکال لیتے ہیں۔ یوں نہ صرف ٹرینوں کی آمد و رفت میں تاخیر سے سالانہ لاکھوں مسافروں کی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے بلکہ ساتھ ہی مال گاڑیوں کی سطح پر یہی جرائم ملکی معیشت کے لیے سپلائی چین میں خلل کا سبب بھی بنتے ہیں۔

ریکو ڈک کے ذخائر اور فوج کی دلچسپی

جرمن شہر ڈورٹمنڈ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے قریب پٹڑیوں اور بجلی کی تنصیبات کا نیٹ ورک
تانبے کے چوروں کی وجہ سے جرمنی میں گزشتہ برس ہزاروں ٹرینیں لیٹ ہو گئیںتصویر: Bernd Thissen/dpa/picture alliance

دیگر متاثرہ شعبے

جرمنی میں تانبے کی چوری کے واقعات کا سامنا صرف ڈوئچے بان جیسی ریل کمپنی کو ہی نہیں بلکہ مثال کے طور پر یہ دھات بہت سے تعمیراتی منصوبوں کی جگہوں سے بھی چرا لی جاتی ہے۔

وفاقی جمہوریہ جرمنی میں تانبے کی چوری کے آج تک کے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک مثال وہ بھی ہے، جو تانبے کی صنعتی تیاری اور ری سائیکلنگ کرنے والی جرمن کمپنی آؤرُوبِس (Aurubis) میں اسی سال دیکھنے میں آئی۔ شمالی جرمن شہر ہیمبرگ میں قائم اس کمپنی نے انکشاف کیا کہ اس کے پیداواری اور ری سائیکلنگ یونٹ سے تقریباﹰ 200 ملین ڈالر (189 ملین یورو) مالیت کا تانبہ چرا لیا گیا۔

بھارت: الیکٹرانک فضلہ غریب بچوں کو مہلک رزق فراہم کر رہا ہے

آؤرُوبِس یورپ میں تانبہ تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس کمپنی نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ اس کے پیداواری یونٹ کی حدود سے مجرموں کے ایک مشتبہ گروہ نے وہاں موجود تانبے یا تانبے کی مصنوعات کا ایک حصہ چرا لیا۔ یہ نقصان اتنا بڑا تھا کہ یہ اس صنعتی ادارے کے سالانہ منافع کی مجموعی مالیت کو بھی متاثر کرے گا۔

چینی امریکی تجارتی جنگ میں نایاب زمینی دھاتیں کلیدی ’ہتھیار‘

جرمنی میں الیکٹرک کاروں کا ایک چارجنگ اسٹیشن
بجلی کی ماحول دوست پیداوار کے شعبے میں آئندہ تانبے کے استعمال کی ضرورت اور زیادہ ہو گیتصویر: Jochen Tack/picture alliance

تانبے کی دستیابی میں کمی

تانبہ ایک ایسی دھات ہے، جو بہت سی الیکٹرک مصنوعات اور مشینوں میں کافی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اب جب کہ عالمی سطح پر یہ رجحان بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ صنعتی شعبے کو اپنی پیداوار ایسی بنانا چاہیے کہ وہ کم سے کم ماحول دشمن کاربن گیسوں کے اخراج کا سبب بنے، تانبے کا صنعتی استعمال اور بھی اہم اور متنوع ہو چکا ہے۔

زمینی معدنی ذرائع میں سرمایہ کاری کے ایک جرمن مشاورتی ادارے Earth Resource Investment (ERI) کے بانی سربراہ یوآخم بیرلنباخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مستقبل میں تانبے کی صنعتی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔

اہم دھاتیں: یورپی یونین کا چین پر خطرناک حد تک انحصار

بیرلنباخ کے مطابق، ''یہ سوچیے کہ ہوا سے بجلی تیار کرنے والے کسی ٹربائن کی طرف سے بجلی پیدا کرنا اس میں لگی تانبے کی تاروں کے کسی مقناطیسی میدان میں گھومنے کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ صرف ایک میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے آپ کو پانچ ٹن سے لے کر نو ٹن تک تانبہ درکار ہوتا ہے۔ اس حجم کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ایسا کوئی ونڈ ٹربائن کسی سمندری علاقے میں ساحل کے قریب لگایا گیا ہے یا پھر کسی خشک یا میدانی علاقے میں۔‘‘

اہم زمینی معدنی ذرائع میں سرمایہ کاری سے متعلقہ امور کے اس جرمن ماہر نے کہا کہ تانبے کی قیمتیں آئندہ بھی مسلسل بڑھتی رہیں گی، ''اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بہت اہم دھاتی خام مال کی ہمارے پاس دستیابی ان مقاصد کے لیے کافی نہیں ہے، جو ہماری ڈی کاربونائزیشن کی ماحولیاتی اور اقتصادی منزل کے حصول کے لیے طے کیے جا چکے ہیں۔ یہ وہ پہلو ہے جو بجلی کی پیداوار کے لیے متبادل لیکن ماحول دوست ذرائع کے استعمال کی ترویج میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘‘

براعظم افریقہ میں تانبے کی کانی کنی کے لیے استعمال ہونے والا ایک وسیع علاقہ
تانبے کی کان کنی اکثر ایسے ممالک میں کی جاتی ہے جہاں ماحولیاتی تحفظ اور انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال بہت خراب ہوتی ہےتصویر: picture alliance

اقتصادی ترقی بھی تانبے کی قیمتوں میں اضافے کا سبب

یوآخم بیرلنباخ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ مستقبل میں بین الاقوامی منڈیوں میں تانبے کی قیمتیں اور زیادہ ہو جائیں گی، جس کی وجہ ترقی کی دہلیز پر کھڑی بڑی معیشتیں ہوں گی، جیسے کہ چین اور بھارت۔

انہوں نے اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معیار زندگی میں اضافے سے جب لوگ زیادہ کاریں خریدیں گے، زیادہ ایئر کنڈیشنر اور دیگر مشینیں بھی خریدیں گے، اپنے لیے نئے گھر بنواتے ہوئے ان میں بجلی کی وائرنگ بھی زیادہ بہتر اور محفوظ بنوائیں گے، تو ان سب کاموں کے لیے تانبے کی طلب تو زیادہ ہوتی ہی جائے گی۔

وِنڈ پاور، قابل تجدید توانائی کے میدان میں جرمنی کی بڑی کامیابی

جرمن کنسلٹنسی فرم ای آر آئی کے بانی سربراہ کے مطابق ان کے ادارے کی شماریاتی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ زمین پر انسانوں نے آج تک جتنی بھی کان کنی کی ہے، اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 700 ملین ٹن تانبہ حاصل کیا جا سکا ہے۔ ''لیکن زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ اگلے 30 برسوں میں انسانوں کو تقریباً اتنی ہی مقدار میں مزید تانبے کی ضرورت بھی ہو گی۔‘‘

چوری شدہ تانبہ کدھر گیا؟

تانبے کی صنعتی پیداوار کے سب سے بڑے یورپی ادارے آؤرُوبِس کے مطابق اس کے ہاں سے تقریباﹰ دو سو ملین یورو مالیت کا تانبہ چوری تو ہوا، مگر اس کا طویل عرصے تک اس لیے پتہ نہ چل سکا کہ اس دوران کمپنی کی فنانشل بک کیپنگ ان مسلسل جرائم کا کھوج نہ لگا سکی۔

جرمنی میں دھاتوں کی تجارت اور ری سائیکلنگ کرنے والے اداروں کی ملکی تنظیم وی ڈی ایم کے ایک مرکزی عہدیدار رالف شمٹس کہتے ہیں کہ چوروں کے لیے اندرون ملک مسروقہ تانبہ فروخت کرنا کوئی آسان کام نہیں، ''اس لیے کہ اس دھات کی ری سائیکلنگ کی یورپی منڈی کے قوانین بہت سخت ہیں اور اس منڈی میں چوری شدہ تانبہ بیچنا بہت مشکل ہے۔‘‘

رالف شمٹس نے برلن سے شائع ہونے والے اخبار 'ٹاگیس اشپیگل‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں حال ہی میں کہا تھا کہ تانبے کی خرید و فروخت کے ہر معاہدے اور ہر ڈلیوری کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہوتا ہے، ''تاجروں کو بھی علم ہوتا ہے کہ کون سی دھات چرائی جاتی ہے اور یہ بات جرمنی کے ہمسایہ مشرقی یورپی ممالک بھی جانتے ہیں۔‘‘

رالف شمٹس کے مطابق تانبہ چوری کرنے والے مجرموں کے گروہ اس مسروقہ دھات کو جرمنی سے باہر فروخت کرتے ہیں اور ان کی ان مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے شینگن زون کے رکن اور یورپی یونین مین شامل ممالک کی کھلی قومی سرحدیں اور بلا روک ٹوک مال برداری کی سہولت آسانیاں پیدا کر دیتی ہے۔

ان کے مطابق، ''میری رائے میں تو یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا بہت سا مسروقہ تانبہ یورپ میں فروخت کیا ہی نہ جاتا ہو، بلکہ کنٹینروں میں بھر کو سمندری راستے سے یورپ سے باہر بھجوا دیا جاتا ہو۔‘‘

م م / ع ا (ڈِرک کاؤفمان)

کمیاب زمینی دھاتیں کیا ہیں؟