1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دانشور سے نہیں، ٹِک ٹاک کی اہمیت کا اشرافیہ سے پوچھیے

18 اکتوبر 2020

صلاحیتوں کا اظہار بھی ٹِک ٹاک پر بھرپور ہو رہا تھا، مگر طبعیت پر گراں یہ بات گزری ہے کہ یہاں رائے کا اظہار بھی ہو رہا تھا۔ فرنود عالم کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3k5nY
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

مغرب میں پریس متعارف ہوا تو با اختیار حلقوں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ کیونکہ پریس کا پہلو محض کاروباری نہیں تھا، یہ علم اور معلومات پر اشرافیہ کی اجارہ داری کے خاتمے کا آغاز بھی تھا۔پریس نے ایک عام تخلیقی ذہن کو یہ اعتماد دیا کہ وہ اپنے خیال کو تحریر میں لاسکتا ہے۔ایک عام قاری کو یہ احساس دیا کہ اب چوری چھپے وہ کتاب تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ وہ کتاب، جو وہ پڑھنا چاہتا ہے۔ وہ کتاب نہیں، جو اسے پڑھائی جا رہی ہے۔ 

ٹھیک یہی معاملہ تب ہوا جب سلطنتِ عثمانیہ میں پہلا چھاپہ خانہ کھلا۔ چھاپے خانوں پر نا صرف یہ کہ قانونی بندش عائد کی گئی بلکہ اس کو خلافِ شرع بھی قرار دیا گیا۔ قسطنطیہ کی جامع مسجد سے جب پریس کے خلاف باقاعدہ فتویٰ جاری ہوا تو گرم عقیدہ مسلمانوں نے ابراہیم رعد کے چھاپے خانے کو جلا کر دھواں کر دیا۔ابراہیم رعد اپنے بچوں اور نابینا والد کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں اول انقرہ کی طرف فرار ہوا، پھر اسکندریہ پہنچ کر روپوشی کی زندگی اختیار کی۔

جو طبقہ ریاستی جبر و قہر کا شکار ہوتا ہے، پریس جیسی سہولت کے آنے پر خوش بھی وہی طبقہ ہوتا ہے۔ ریاست کی زبان میں وقت کا وظیفہ پڑھنے والے پہلے ہی سہولت میں ہوتے ہیں۔ابلاغ کے لیے لاؤڈ اسپیکر، ریڈیو یا ٹی وی جیسے کسی ذریعے کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔ اُن کی بات تو ویسے بھی صدائے کُن فیکون ہوتی ہے، جو بغیر کسی حیلے وسیلے کے دما دم سنائی دے رہی ہوتی ہے۔لاؤڈ اسپیکر یا ٹی وی جیسے کسی بھی وسیلے کی وہ اول اول اسی لیے تو مخالفت کرتے ہیں کہ پسے ہوئے طبقے کو آواز نہ مل جائے۔ بعد میں وہ اسی ذریعے کو اس لیے اختیار کر لیتے ہیں کہ بے آواز طبقے کا ہر سمت سے گھیراؤ کیا جاسکے۔ کبھی بنامِ وطن اور کبھی بحیلہِ مذہب!      

 چھاپے خانے کھلنے پر جو کتابیں سامنے آئیں وہ تازہ زمانے کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔ان کتابوں کے مصنفین نے اشرافیہ کے قہر وغضب سے بچنے کے لیے یا تو قلمی نام اختیار کیے یا پھر سرے سے کتاب پر کوئی نام ہی نہیں لکھا۔محتسبوں نے نامعلوم مصنفین کا نام ونشان معلوم کرنے کے لیے نامی گرامی پبلشروں کو ہراساں کیا۔ برطانیہ کے جان ٹوائن نے مصنف کا نام نہیں بتایا تو چرچ نے اسے سزائے موت دے دی۔ ابراہیم رعد نے مصنف کا نام چھپایا تو شیخ الاسلام نے اس کا چھاپہ خانہ نارِ نمرود میں جھونک دیا۔ 

ٹاک ٹاک کی بندش، پاکستان میں بحث

’فحاشی‘ کنٹرول نہ کرنے پر پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی

پاکستان میں بیگو ایپ پر پابندی، ٹک ٹاک کو بھی حتمی نوٹس جاری

چھاپے خانوں کے کھلنے کے بعد جو نیا مواد سامنے آیا وہ کاروبارِ مملکت میں عوامی رائے کو اہمیت دیتا تھا۔جنس اور صنف، رنگ اور نسل، نظریے اور موقف کی بنیاد پر تفریق کے خاتمے پر اصرار کرتا تھا۔علم اور اخلاق پر عقیدے کی اجارہ داری کو مسترد کرتا تھا۔اس کے نتیجے میں اضطراب ہی پھیل سکتا تھا، سو پھیل گیا۔ دراصل اسے ارتقا کہتے ہیں، مگر اشرافیہ کی لغت میں اسے انتشار کہا جاتا ہے۔ اشرافیہ جسے انتشار کہتی ہے وہ آنے  والے وقت کا نصاب ہوتا ہے۔یہ آنے والے وقت کا نصاب ہی ہوتا ہے جسے آج کی تاریخ میں غیر اخلاقی مواد قرار دے کر ضبط کر لیا جاتا ہے۔ مغرب کے سلاطین نے کہا تھا کہ پریس کی وجہ سے سماج میں غیر اخلاقی مواد پھیل رہا ہے۔ مشرق کے خلفا نے کہا تھا، انگریز کے ایجاد کیے ہوئے پریس میں قرآنی آیات شائع کر کے لوگ توہینِ مذہب کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ صدیوں کے اس سفر میں بہت کچھ بدل گیا ہے، مگر اظہار پر بندش عائد کرنے کے لیے یہ دو جواز بالکل نہیں بدلے۔ 

دنیا میں سوشل میڈیا رابطے اور تبادلے کا ایک ذریعہ ہوگا، مگر پاکستان جیسے ملکوں میں یہ اظہارِ رائے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس نقار خانے کی حیثیت یہاں وہی ہے جو انقرہ میں چھاپے خانے کی تھی۔ روایتی طبقے نے اپنی روایت نبھاتے ہوئے ابلاغ کے اس ذریعے پر بھی مذہب اور ثقافت کی رو سے تشویش کا اظہار کیا۔ کیوں نہ کیا جاتا؟ غیر مسلم اقلیتوں، خواتین، جمہوریت پسند حلقوں، علاقائی طاقتوں اور ترقی پسند دھڑوں کو آواز ملنے کا امکان جو پیدا ہوگیا تھا۔ پرنٹنگ پریس کے شروع کے دنوں کی طرح یہاں بھی لوگوں کو یا تو نام بدلنا پڑا یا مکمل طور پر پر اپنی شناخت چھپانا پڑی۔ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ نامعلوم مصنفین تک رسائی دے اور ناپسندیدہ مصنفین کے گھیراؤ کے لیے تعاون کریں۔ کیوں بھئی؟ کیونکہ یہ لوگ غیر اخلاقی مواد پھیلانے میں ملوث ہیں۔ صدیوں پرانے اسی گھسے پٹے اور فرسودہ جواز کو سامنے رکھ کر ٹِک ٹاک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔        

ٹِک ٹاک جیسے رسوائے زمانہ پلیٹ فارم کو میں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔گلی کا نکڑ اور ہاسٹل کا کمرہ ہمیں ویسے بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا ٹِک ٹاک پر کوئی اکاؤنٹ نہیں تھا، مگر یہ کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ کچھ ٹِک ٹاک اسٹارز مجھے ایسے ہی پسند تھے جیسے انسان کو اپنا کوئی استاد، کوئی رہنما، کوئی ادیب یا کوئی فن کار پسند ہوتا ہے۔ ٹِک ٹاک کے آنے کے بعد دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے خستہ سے گھر تک میں چھوٹے چھوٹے اسٹوڈیو قائم ہوئے۔ پیسہ پیسہ جوڑ کر ان لوگوں نے اچھے موبائل، اسٹینڈ، مائک، لائٹیں خریدیں۔ آڈیشن کے نام پر استحصال کرنے والے پیداگیروں کی انہیں کوئی محتاجی نہیں تھی۔یہ ایڈیٹر بھی خود تھے اور پروڈیوسر بھی خود تھے۔اسکرپٹ بھی خود لکھتے تھے اور آئیڈیا بھی خود لاتے تھے۔ بیس سیکنڈ کے اندر چار جملوں اور دس اشاروں میں جب کوئی ٹِک ٹاکر پورا بیانیہ مرتب کر کے سامنے رکھ دیتا تو حیرت ہوتی کہ اس غریب الدیار کے دماغ میں یہ آئیڈیا آخر آیا کیسے ہوگا۔ ایسی زرخیزیاں دیکھ کر دل کچھ دیر کے لیے اداس بھی ہوجاتا کہ دیکھو ہماری زمین کیسے کیسے آسمان کھا گئی ہے۔ پھر مطمئن بھی ہوجاتا کہ چلو روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ 

دلچسپی کا ایک بڑا پہلو یہ بھی تھا کہ دقیق زبان میں بھگارے گئے فلسفوں کو یہاں عوامی رنگ ملتا تھا۔سچ پوچھیے تو اسی کو  صحیح معنوں میں اثر اندازی بھی کہتے ہیں۔اثر اندازی یہ تو نہیں ہوتی کہ چار دانشوروں نے مل بیٹھ کر مشکل اصطلاحات کی جگالی کرلی اور بیس تیس کتابیں لکھ کر کونہ پکڑ لیا کہ تپسی تو آپئیں ٹُھس کرسی۔ اثر اندازی تو یہ ہے کہ قلم سے جو نکل رہا ہے وہ زبانوں پر جاری بھی ہوجائے۔ کہا جاتا ہے کہ اسد اللہ خاں غالب کے لیے وہ دن بہت خوشی کا تھا جب ان کی غزل کو محلہ بلی ماراں کے کسی بالا خانے پر طوائف نے گنگنایا تھا۔ غالب نے کہا تھا، جس شاعر کا کلام بالا خانوں میں کوئی مطربہ گا دے اس شاعر کا کلام کو پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شعر زندہ رہتے ہیں، مگر جسے میراثی کے ہونٹ چھو لیتے ہیں، وہ شعر امر ہوجاتے ہیں۔ 

کتب خانے کا حاصل کچھ نہیں ہے اگر شہر کے چائے خانے آباد نہیں ہے۔گلی کا فقیر مصرعہ نہیں اٹھائے گا تو بات آگے کیسے بڑھے گی۔ فقیر کتاب پڑھتا ہے اور نہ کتاب پڑھاتا ہے۔ وہ کہانی سنتا ہے اور کہانی سناتا ہے۔ لکھی ہوئی بات جب تک بول چال میں نہیں آتی، تحریک نہیں اٹھتی۔ کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر لکھنے لکھانے والوں نے پڑھی لکھی اقلیت کو بہت متاثر کیا ہے۔ ناخواندہ اقلیت کو مگر ٹِک ٹاک جیسے راستوں سے ہی بات پہنچی ہے۔ قلم کی عظمت اور حرمت اپنی جگہ، مگر وہ محدود طبقے کو ہی بتا پاتا ہے کہ جنگل میں مور ناچا تھا۔ یہی بات جب زبان بتاتی ہے تو بات بہت دور تلک نکل جاتی ہے۔ کیمرہ بھی شامل حال ہو جائے تو پھر مور کو ناچتا ہوا دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ پڑھنے کے لیے خواندگی کی ایک شرح بہرحال چاہیے ہوتی ہے۔ سننے اور دیکھنے کے لیے یہ کافی کہ آپ کے پاس کان ہیں اور آنکھیں ہیں۔

سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ٹِک ٹاک کو ہلکا لیا گیا۔ بالکل اسی طرح، جس طرح اول اول فیس بک اور ٹوئیٹر کو ہلکا لیا گیا۔ رفتہ رفتہ اس بات کو تسلیم کرلیا گیا کہ رائے عامہ کو متاثر کرنے میں روزناموں کا کردار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ روزنامے اب خبر دے رہے ہیں اور سوشل میڈیا خبر کا پس منظر بھی بتا رہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت تو آپ کو نو بجے کے خبرنامہ بھی بتا دیتا ہے، مگر پاپا جونز میں پیزا کی کون سی ڈیل کتنے میں چل رہی ہے، یہ آپ کو سوشل میڈیا ہی بتا سکتا ہے۔ 

ٹِک ٹاک کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ریاست نے سوشل میڈیا کے خٖلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو سب سے پہلے ٹِک ٹاک کا ٹینٹوا دبایا۔ وہ جانتے ہیں کہ ٹِک ٹاک پر اگر پابندی لگادی جائے تو چائے کے ڈھابوں میں، حجام کی دکانوں میں، گلی کے نکڑ پر، ٹیکسی کے سٹینڈ پر، مزاروں کے اطراف میں، گاؤں کے بازار میں، چھوٹے دکان دار تک، مزدور اور کسان تک، کچی آبادیوں کی آڑی ٹیڑھی گلیوں میں، اطراف کی خیمہ بستیوں میں، پسی ہوئی اقلیت تک اور ناخواندہ اکثریت تک جو آواز پہنچ رہی ہے، وہ روکی جاسکتی ہے۔

صلاحیتوں کا اظہار بھی ٹِک ٹاک پر بھرپور ہو رہا تھا، مگر طبعیت پر گراں یہ بات گزری ہے کہ یہاں رائے کا اظہار بھی ہو رہا تھا۔ بات اگر ٹِک ٹاکرز کی بدتمیزیوں کی ہی ہے تو پھر یقیناﹰ ان کی تربیت کے لیے ایک درس گاہ قائم  کرنے کی ضرورت ہے۔ بس یہ ہے کہ جب ٹِک ٹاکرز کو شائستگی کا کوئی سبق پڑھایا جائے تو اراکینِ پارلیمنٹ کی گفتگو انہیں بطور مثال سنانی چاہیے۔ شائستگی سکھانے کے لیے یہ گفتگو کم پڑجائے تو پھر ٹی وی پروگراموں میں ہونے والے مباحثے سنانے چاہییں۔آکسفورڈ کے ایک گریجویٹ کی وہ تقریریں تو ضرور سنوانی چاہییں، جو انہوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد فرمائی ہیں۔

ٹک ٹاک پر پابندی اظہار رائے پر پابندی ہے، نگہت داد