1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سبالٹرن تاریخ نویسی، ایک عوامی نقطہ نظر

27 ستمبر 2021

علم تاریخ انسانوں کو نہ صرف ماضی کے بارے میں علم عطا کرتا ہے بلکہ یہ منصوبہ بندیوں میں بہتری کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے، جو انسان کو کچھ کر گزرنے کی ہمت دیتی ہے لیکن عام انسان اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/40uiV
Mubarak Ali
تصویر: privat

برصغیر ہندوستان میں تاریخ نویسی کئی مرحلوں سے گزری ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں عربوں کی فتح سندھ کے بعد انہوں نے اپنی فتوحات کی تاریخ لکھی۔ تیرہویں صدی عیسوی میں جب سلاطین کی حکومت  قائم ہوئی تو وہ اپنے ساتھ تاریخی روایات لے کر آئے۔ یہ سلسلہ مغلیہ عہد تک جاری رہا۔ پھر مغلوں کے بعد جب انگریزوں کی حکومت آئی تو کالونیل تاریخ نویسی کا رواج عام ہوا۔

آزادی کی جدوجہد کے دوران ہندوستانی مورخوں نے قوم پرستی کے تحت اپنی تاریخ کی تشکیل کی اور ماضی کے عہد کو دوبارہ سے اجاگر کیا۔ خاص طور سے مغلیہ عہد میں ہندو اور مسلمان ثقافتی طور پر ہم آہنگ ہو گئے تھے۔ لیکن 1924ء کے بعد تاریخ نویسی پر فرقہ وارانہ اثرات مرتب ہوئے، جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے تاریخ کو تعصب کے جذبے کے ساتھ لکھا گیا۔

آزادی کے بعد قومی تاریخ کی روایات بڑی مضبوط تھیں۔ اس کو ریاست کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ لہٰذا قومی تاریخ نویسی میں سیاسی شخصیات کے کرداروں اور ان کی خدمات کو ابھارا گیا۔ ملک کی آزادی کا سہرا ان ہی کے سر باندھا گیا۔ آزادی کی جدوجہد میں عوام کی قربانیوں، ان کے مظاہروں، جلسے، جلوسوں اور ان کی شرکت اور سیاسی پارٹیوں کو دی جانے والی ان کی حمایت ان سب کو تقریباً نظرانداز کر دیا گیا۔

 اس لیے قومی تاریخ میں صرف سیاسی رہنما ہی ہیرو بن کر ابھرے اور  اور سیاسی پارٹیاں ہی مقبول ہوئیں۔ قومی تاریخ کے مقابلے میں مورخوں نے مارکسی نقطہ نظر سے تاریخ کا جائزہ لیا اور خاص طور سے انہوں نے مزدوروں کی تاریخ اور ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں پر توجہ دی۔ اس صورت حال میں تاریخ نویسی کے اندر بہت گنجائش تھی کہ اس کو عوامی نقطہ نظر سے لکھا جائے۔

اس صورت حال کے پیش نظر سن 1982ء میں رنجیت گوہا، جو خود مارکسی روایات کے حامی تھے نے ہم خیال مورخوں کے ساتھ مل کر سبالٹرن تاریخ نویسی کی بنیاد ڈالی۔ سبالٹرن کی اصطلاح انہوں نے اٹلی مارکسی مفکر Antonio Gramsci (d.1937) سے لی تھی، جسے اس نے اپنی کتاب "Prison Note Book" میں استعمال کیا ہے۔

تاریخی نویسی کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے

اس سے اس کا مطلب پرولتاری ہے مگر سینسر شپ سے بچنے کے لیے اس کی جگہ سبالٹرن کی اصطلاح استعمال کی، یعنی معاشرے کے غریب اور نادار لوگ جنہیں نہ صرف تاریخ سے نکال دیا گیا بلکہ انہیں ٹھکرا بھی دیا گیا ہے۔ سبالٹرن کے مورخوں نے اس بات کی کوشش کی کہ قومی تاریخ اور مارکسی تاریخ نویسی میں جو مفروضے ہیں ان پر تنقید کی جائے اور عوامی تاریخ کو نئے سرے سے تشکیل کیا جائے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ان کے سامنے کئی مشکلات تھیں۔ عوامی تاریخ لکھنے کے لیے مواد کی سخت کمی تھی۔ لہٰذا انہوں نے کالونیل تاریخ اور قومی تاریخ کی تحریروں سے عوام کے بارے میں جو مواد ملا اسے اکٹھا کیا۔ اس کے بعد سرکاری دستاویزات جن میں عدالتی ریکارڈ ٹیکسوں کے آزاد و شمار، لوک کہانیاں، لوگ گیت، نظمیں اور تہواروں میں لوگوں کی شرکت اور رسومات ان سب نے مل کر انہیں عوامی تاریخ کا مواد فراہم کیا۔

سبالٹرن مورخوں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ تاریخ جسے انگریزی دور میں گم کر دیا گیا تھا، اسے واپس لایا جائے تاکہ عوامی تاریخ کے سرمائے میں اضافہ ہو۔ انہوں نے اس بات کی بھی کوشش کی کہ تاریخ نویسی کی جڑیں اپنے ہی ملک میں رہیں اور مغرب کی تقلید نہ کریں، جن کی تاریخ نویسی میں یورپ کو مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔

سبالٹرن مورخ تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک اشرافیہ یا (Elite) اور دوسری سبالٹرن یا عوام کی۔ اس پر یہ بحث بھی ہوئی کہ کیا ان دونوں تاریخوں کو علیحدہ علیحدہ رکھ کر ان کا تجزیہ کیا جائے یا اشرافیہ اور عوامی تاریخ کو باہم ملا کر دیکھا جائے۔ لہٰذا دونوں ہائے نقطہ نظر سے مضامین لکھے گئے۔ ایک وہ جن میں اشرافیہ کی تاریخ کو بھی اہمیت دی گئی اور دوسرا وہ جس میں سبالٹرن کی تاریخ پر توجہ دی گئی۔ لہٰذا سباٹرن تاریخ نویسی نے نہ صرف قومی تاریخ سے انحراف کیا بلکہ مارکسی نقطہ نظر کو بھی نامکمل پایا جس نے نچلی سطح پر جاکر عوامی تاریخ کی طرف تحقیق نہیں کی۔

سبالٹرن تاریخ نویس کا دوسرا دور تھیوریز کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ اس میں جدیدیت ساختیات اور Edward Said (d.2003) کی کتاب Orientalism ہے۔ تاریخ نویسی میں جب تھیوریز کا عمل دخل ہوا تو یہ اپنے پہلے دور کے تقاضوں سے ہٹ گئے۔ اس لیے مورخوں میں تنازعہ  پیدا ہوا اور مضامین کی بارہ جلدیں شامل کرنے کے بعد ان کی جماعت منتشر ہو گئی۔

تاریخ نویسی کے نئے مکاتب

اگرچہ سبالٹرن مورخوں نے برصغیر کی تاریخ کو بدلا اور روایات سے ہٹ کر ایک نیا راستہ تلاش کیا لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عوام کی تاریخ کو انگریزی میں لکھا جائے اور اس کو بیان کرنے کے لیے مشکل زبان اور تھیوریز کو شامل کیا جائے، اس صورت میں یہ لکھی ہوئی تاریخ مورخوں میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور جن کے لیے یہ لکھی گئی ہے وہ اس سے محروم رہتے ہیں اور یہ تاریخ ان کی زندگی میں نہ تو ذہنی تبدیلی لاتی ہے اور نہ کوئی شعور پیدا کرتی ہے۔

سبالٹرن مورخوں کے لیے یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ عوام کی اکثریت ریاستی پروپیگنڈے کے زیر اثر یا اپنے ماحول اور مسائل سے متاثر ہو کر شخصیات کو ہیرو بنا لیتی ہے ۔ جیسا کہ آزادی کی تحریک میں یہ منصب سیاسی رہنماوں کو ہی دیا گیا۔ اس رویے سے نہ صرف حکمران طبقے اپنے مفادات پورے کرتے ہیں بلکہ عوام بھی ان کے سائے میں پناہ لیتے ہیں۔ اگرچہ سبالٹرن مورخوں نے گاندھی جی، پنڈٹ نہرو، محمد علی جناح ان سب پر تنقید کرتے ہوئے یہ تجزیہ کیا ہے کہ آزادی کے بعد بھی ان رہنماؤں نے برطانوی روایات کو جاری رکھا اور بورژہ طبقے کی حکمرانی کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کی قوت اور توانائی کو پوری طرح سے استعمال نہیں کیا۔

سبالٹرن تاریخ نویس نے اگرچہ تاریخ کو ایک نئے انداز سے دیکھا اور اس کا تجزیہ بھی کیا مگر اس کے یہ اثرات دیرپا ثابت نہیں ہوئے، جن مورخوں نے یہ تاریخ لکھی ان کا تعلق نچلے طبقے سے نہیں تھا۔ وہ بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ وہ عوام کے لیے تاریخ تو لکھ رہے تھے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی تاریخ عوام کی نمائندگی بھی کرتی ہے اور کیا یہ حق عوام کو ہے کہ وہ اپنی تاریخ خود لکھیں اور خود ان کی نمائندگی کریں۔ شاید اس صورت میں صحیح عوامی تاریخ  لکھی جا سکے گی۔