1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی بادشاہ اور ولی عہد کی جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے تعزیت

22 اکتوبر 2018

سعودی عرب کے بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ترکی میں ایک سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے صالح سے ٹیلی فون پر بات چیت میں ان سے ان کے والد کی موت پر تعزیت کی۔

https://p.dw.com/p/36vHO
Türkei Saudi-Konsulat in Istanbul
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/He Canling

پیر کے روز سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کی جانب سے بتایا گیا کہ اس ٹیلی فون کال میں شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے بیٹے سے بات چیت میں اس واقعے پر ’گہرے صدمے‘ کا اظہار کیا۔

خاشقجی کا قتل ’بڑی اور سنگین غلطی‘ تھی، سعودی وزیر خارجہ

خاشقجی کی ہلاکت پر سعودی وضاحت ناکافی ہے، میرکل

خاشقجی رواں ماہ کی دو تاریخ کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں اپنی نئی شادی کے لیے درکار کاغذات کے حصول کے لیے گئے تھے، تاہم انہیں قونصل خانے کے اندر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ ابتدائی چند ہفتوں میں سعودی حکومت کی جانب سے مسلسل ان اطلاعات کی تردید کی جاتی رہی اور دوہرایا جاتا رہا کہ خاشقجی قونصل خانے سے چلے گئے تھے، تاہم گزشتہ ہفتے کے روز ریاض حکومت نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ خاشقجی قونصل خانے کے اندر ہی ایک ’جھگڑے‘ میں مارے گئے تھے۔

دوسری جانب ترک حکام کا کہنا ہے کہ قونصل خانے کے اندر موجود 15 رکنی سعودی ٹیم نے خاشقجی کی انگلیاں کاٹیں، انہیں قتل کیا اور پھر ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔

اتوار کے روز ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ’برہنہ سچ‘ جلد ہی سامنے آ جائے گا۔ سعودی حکومت کے مطابق جمال خاشقجی کی لاش سے متعلق اسے علم نہیں ہے اور ولی عہد محمد بن سلمان بھی اس قتل سے بے خبر تھے۔

اتوار کے روز استنبول میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب میں ایردوآن نے کہا، ’’ہم یہاں انصاف کے منتظر ہیں۔ اس سلسلے میں برہنہ سچ جلد ہی سامنے آ جائے گا۔‘‘ انہوں نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ وہ اس قتل سے متعلق ’جھوٹ‘ بول رہا ہے۔

ادھر سعودی وزیرخارجہ عادل الجیبر نے اس قتل کو ’سنگین غلطی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’مجرمانہ کارروائی‘ چند افراد نے کی، جنہوں نے اپنے ’اختیارات سے تجاوز‘ کیا اور پھر اسے ’چھپانے کی کوشش‘ کی۔

امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے بات چیت میں الجبیر نے کہا کہ اس قتل کے احکامات ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں دیے تھے۔ ’’ہمیں معلوم نہیں ہے کہ جمال خاشقجی کی لاش کہاں ہے۔‘‘

دوسری جانب اس واقعے کے بعد سعودی عرب اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس قتل سے متعلق متفقہ نکتہ ہائے نگاہ اپناتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب اس معاملے کی وضاحت کرے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی برآمد کے 416 ملین ڈالر کے معاہدے پر عمل درآمد روکنے کا اعلان کیا ہے جب کہ کینیڈا نے بھی سعودی عرب کے ساتھ طے کردہ دفاعی معاہدہ معطل کر دیا ہے۔ اسی قتل کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی ہے۔

ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)