1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ’مودی کے بھارت‘ کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے پُرامید

ندیم گِل19 مئی 2014

ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی کی انتخابی کامیابی نے بھارت کے ڈیڑھ سو ملین مسلمانوں میں سے بہت سوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ تاہم پاکستان میں مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کی اُمید ظاہر کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1C2BU
تصویر: imago/Xinhua

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نریندر مودی کی ’متاثر کُن فتح‘ کا خیر مقدم کر چکے ہیں۔ وہ خود بھی سینٹر رائٹ رہنما ہیں۔ تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق وہ اپنے گزشتہ دَور حکومت میں دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ تعلقات کو مودی کے لیے پائی جانے والی پُرامید فضا کی وجہ بتاتے ہیں۔

نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں 1999ء میں واجپائی بذریہ بس لاہور پہنچے جہاں دونوں ملکوں نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے۔ تاہم اس کے تین مہینے بعد ہی کارگل کی جنگ چھڑ گئی تھی۔ نواز شریف خود کو اس معرکے سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا رہا ہے کہ فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف نے انہیں آگاہ کیے بغیر پیش قدمی کی۔ بعدازاں پرویز مشرف نے ہی نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

اب ایک مرتبہ پھر پاکستان میں نواز شریف وزیر اعظم ہیں تو بھارت میں بی جے پی کی حکومت آنے کو ہے۔ نواز شریف کی جماعت کو بھی گزشتہ برس کے انت‍خابات میں بھاری مینڈیڈیٹ ملا تھا جبکہ بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو بھی مثالی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

Pakistan Premierminister Nawaz Sharif
نواز شریفتصویر: picture alliance/AP Photo

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپوزیشن پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ شیری رحمان کہتی ہیں کہ متاثر کن فتح سے مودی کو خطے میں استحکام کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا حوصلہ ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے: ’’اگر ان کی پالیسیوں کی بنیاد معیشت پر ہے تو پھر پاکستان کے لیے مودی کے بھارت کے ساتھ کاروبار کرنا آسان رہے گا، لیکن گیند اس وقت بھارت کے کورٹ میں ہے۔‘‘

وُڈرو وِلسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کی سابق فیلو سِمبل خان کا کہنا ہے کہ کانگریس اپنے سیکولر اور لبرل نظریات کے باوجود پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں ناکام رہی اور اس کی وجہ اس جماعت کی غیرمقبولیت رہی ہے۔

ان کے مطابق عمومی تاثر یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں پیش رفت کانگریس کے بجائے مودی کے دَور حکومت میں زیادہ ممکن ہے۔ وہ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے بھی بھارتی پنجاب کی شیرومانی اکالی دَل پارٹی کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کیے ہیں جو بی جے پی کی اتحادی جماعت ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کے ہیرالڈ میگزین کے ایڈیٹر بدر عالم کا کہنا ہے کہ مودی کو امن کے لیے زیادہ مجبور کیا گیا تو انہیں اپنی جماعت کے اندرونی حلقوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے مخالف رہے ہیں۔

اُدھر پاکستان میں سویلین قیادت اور کاروباری حلقے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم عوام کا ایک حلقہ مودی کو برا بھلا کہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بارہ برس قبل جب وہ بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو وہاں ہندو مسلم فسادت میں سینکڑوں مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔ ان ہلاکتوں کی ذمہ داری مودی پر ہی عائد کی جاتی ہے۔