1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلیاں، امریکی کانگریس میں بریفنگ

مقبول ملک22 مئی 2014

پاکستان کو ایسی قانونی ترامیم درکار ہیں جن کے ذریعے مذہب کی جبری تبدیلی ممنوع قرار دی جا سکے۔ امریکی کانگریس کو دی گئی ایک بریفنگ کے مطابق ایسے واقعات سالانہ سینکڑوں جنسی زیادتیوں اور دیگر ناانصافیوں کی وجہ بن رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1C4HA
تصویر: Fotolia/davidevison

واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں اقلیتی آبادی کے افراد کو مذہب کی تبدیلی پر مجبور کرنے کے رجحان کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کی طرف سے بدھ کی رات امریکی کانگریس کے ارکان کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس طرح مذہب بدلنے کے واقعات اس ملک میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم پاکستانی لڑکیوں کو کئی طرح کی دیگر ناانصافیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

Pakistan Demonstration von Christen
پاکستانی مسیحی اقلیت کے ارکان احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ موومنٹ فار سالیڈیریٹی اینڈ پیس یا تحریک برائے یکجہتی و امن ایک ایسی تنظیم ہے جو پاکستان میں مذہبی تشدد کے خلاف فعال ہے۔ اس تنظیم کے مطابق پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے جو واقعات دیکھنے میں آتے ہیں، ان میں عام طور پر غیر مسلم لڑکیوں یا نوجوان خواتین کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر ان سے اسلام قبول کروا کر ان کی شادیاں کروا دی جاتی ہیں۔

اس گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسی غیر مسلم پاکستانی خواتین کو اکثر جنسی زیادتیوں کے علاوہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور جب ان کے اہل خانہ کی طرف سے پولیس کو شکایت کی جاتی ہے تو اغوا کاروں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ متعلقہ لڑکی یا خاتون نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

اس پاکستانی غیر سرکاری تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن محتاط اندازوں کے مطابق اکثریتی طور پر مسلم آبادی والے پاکستان میں ہر سال 100 اور 700 کے درمیان مسیحی لڑکیاں اور کم از کم 300 تک ہندو لڑکی‍اں مذہب کی جبری تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں۔

اس موومنٹ کی ایک عہدیدار عنبر جمیل نے بدھ کی رات واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ رجحان پاکستان میں تمام شہریوں کی مذہبی آزادی اور عوامی تحفظ کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اس تنظیم نے پاکستانی عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قانونی حوالے سے ’مذہب کی جبری تبدیلی‘ کی تعریف کرے اور اس قانونی تعریف کو تعزیرات پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔

Pakistan Hindu Minderheit
حالیہ عرصے میں کئی پاکستانی ہندو خاندان نقل مکانی کر کے بھارت جا چکے ہیںتصویر: DW/N. Yadav

بریفنگ کے دوران ایک مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کا سبب بننے والے اغوا کار کئی طرح کے قوانین کی خلاف ورزیوں کا سبب بنتے ہیں۔ اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ مسلم اکثریتی پاکستان میں کسی بھی غیر مسلم جوڑے کی شادی کو اس وقت بالعموم غیر مؤثر سمجھا جاتا ہے جب شوہر یا بیوی میں سے کوئی شادی کے بعد اسلام قبول کر لے۔

پاکستان کی مسیحی برادری کے ایک رہنما پیٹر جیکب نے امریکی کانگریس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے اسلام آباد حکومت کو مجبور کیا جانا چاہیے کہ وہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے زیادہ بہتر اور مؤثر اقدامات کرے۔ پیٹر جیکب نے اس بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے لیے علیحدہ انتخابی نظام کے خاتمے سمیت سرکاری سطح پر جو بھی اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں یا جو بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کے باوجود اقلیتوں کے حوالے سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تشدد بظاہر ایک ’خود بخود شروع ہو جانے والا عمل‘ بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران مذہبی خونریزی میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2013ء میں پورے پاکستان میں باقاعدہ ٹارگٹ بنا کر 400 شیعہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید