1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں کم سن بچوں کی شرح اموات ہنوز تشویش ناک

Kishwar Mustafa18 ستمبر 2012

ماہرین کے مطابق ہیضہ، اسہال،ملیریا ، ٹایفائیڈ اور سانس کی بیماریاں پاکستان میں چھوٹے بچوں کی زیادہ تر اموات کا باعث بنتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/16AJf
تصویر: picture-alliance/dpa

اگر چہ دنیا بھر میں کم عمربچوں کی شرح اموات میں کافی حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے بیس سالوں میں چھوٹے بچوں کی شرح اموات میں پچاس فی صد کمی واقع ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود جنوبی ایشیا اوربعض افریقی ممالک میں اس حوالے سے خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل ہو سکی ہے۔ جہاں پانچ سال کی عمر سے پہلے فوت ہو جانے والے بچے دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کا اسی فی صد بتائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں بچوں کی بیماریوں کی سب سے بڑی علاج گاہ چلڈرن ہسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر احسن وحید راٹھور نے بتایا کہ پاکستان میں چھوٹے بچوں کی شرح اموات کے حوالے سےنمایاں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ ان کے بقول ہر ایک ہزارپاکستانی بچوں میں سے ستر سے پچھتر بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں۔

Äthiopien unterernährtes Kind mit Mutter
خوراک کی کمی بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہتصویر: picture alliance/dpa

ان کے بقول صفائی اور صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان، تعلیم اورآٓگاہی کا نہ ہونا، پس ماندہ علاقوں میں غریب لوگوں کا علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہ رکھنا اور نومولود بچوں کی بیماریوں کا نیم حکیموں سےعلاج کروانے کا رجحان پاکستان میں چھوٹے بچوں کی زیادہ شرح اموات کی بڑی وجوھات ہیں۔

پروفیسر راٹھور کے بقول بچے کی ولادت سے پہلے زچہ اور بچہ کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے مناسب معائنوں کا ہونا، ماں کے لیے ویکسینیشن اور مناسب غذا اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی ضروری ہے،نومولود بچے کو ماں کا دودھ چھہ ماہ تک پلانا چاہیے اور اسے آلودہ پانی کی ملاوٹ والا ناقص دودھ نہیں دیا جا نا چاہیے کیونکہ یہ بچے کا وزن کم رہ جانے کا سبب بن سکتا ہے اور اس کی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ اور یوں بچہ بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر راٹھورجو کہ دی انسٹیٹیوٹ آف چائیلڈ ہیلتھ کے بھی سربراہ ہیں، کہتے ہیں، کہ پاکستان میں بہت چھوٹے بچوں میں پیٹ کی خرابی اور سانس کی بیماریاں بھی بہت عام ہیں۔"یہاں بعض گھروں میں آٹھ آٹھ لوگ ایک کمرے میں نوزائیدہ بچوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں، پھر نئے بچے کو ہر آنے والے مہمان کی طرف سے چوم چوم کر پیار کرنے کا بھی رواج ہے۔ ان کے جراثیم بھی بچوں تک منتقل ہوتے ہیں۔"

"دیہات میں رہنے والے پاکستانی خواتین کی بہت بڑی تعداد آج بھی دائیوں اور غیر تربیت یافتہ عورتوں سے ڈیلیوری کا کیس کرواتی ہیں، اس وجہ سے بعض اوقات نومولود بچہ طبی پیچیدگیاں اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ کئی دائیوں کو ماں کے پیٹ میں بچے کی غلط پوزیشن کا صحیع اندازہ نہیں ہو پاتا اور نومولود بچہ آکسیجن کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ساری وجوہات بعض اوقات چھوٹے بچوں کی اموات کا باعث بھی بنتی ہیں۔"

Amnesty Erfolg Sierra Leone Programm gegen Müttersterblichkeit
بچوں کی کم سنی میں موت کی شرح جنوبی ایشیا اور افریقہ میں یکساں بڑھی ہوئی ہےتصویر: AP

بچوں کے امراض کے ایک اور ماہر ڈاکٹر ابوذر کہتے ہیں، کہ ہیضہ، اسہال،ملیریا ، ٹایفائیڈ اور سانس کی بیماریاں پاکستان میں چھوٹے بچوں کی زیادہ تر اموات کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے بقول بعض لوگ بچوں کی سنگین بیماریوں کا علاج پیروں فقیروں یا غیر تجربہ کار حکیموں سے کرواتے رہتے ہیں اور جب صورتحال خراب ہو جاتی ہے تب وہ ہسپتال کی طرف بھاگتے ہیں، اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔" ہم لاہور کے چلڈرن ہسپتال کی ایمر جینسی میں روزانہ دور دراز کے علاقوں سے لائے گئے کئی مردہ بچے وصول کرتے ہیں۔"

ان کے بقول اگرچہ سرکاری ہسپتال میں علاج کی سہولت فری ہے لیکن دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے اور یومیہ مزدوری پر کام کرنے والے غریب لوگ لاہور لا کر بچوں کا علاج کروانا افورڈ ہی نہیں کرپاتے۔ جو علاج کے لیے بڑے شہروں میں آ جاتے ہیں ان میں سے بہت سے فالو اپ وزٹ کے لیے دوبارہ ہسپتال نہیں آ پاتے۔

یاد رہے کہ دو سو پچاس مریضوں کے لیے بنائے جانے والے لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں اس وقت چودہ سو بچے زیر علاج ہیں، قریبا چالیس بڑی بیماریوں کے علاج کی سہولت فراہم کرنے والے اس ہسپتال میں، ملک بھر سے روزانہ پچیس سو بچے علاج کے لیے لائے جاتے ہیں۔ان میں بعض اوقات افغانستان اور بھارت سے آئے ہوئے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پنجاب میں ایسا ایک ہسپتال ملتان میں بن چکا ہے، جبکہ فیصل آباد اور راوالپنڈی میں بھی ایسے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔

فوزیہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اپنے بیمار بچے کو لیکر ہسپتال آئی ہوئی ہے، اس نے بتایا کہ برسات کے موسم میں بچوں کو پانی ابال کر پلانا چاہیے اور بازار کی بنی ہوئی کھلی اشیا نہیں کھانے دینی چاہیے۔

ان کے بقول چھوٹے بچوں کو بیماری کی صورت میں صرف مستند ڈاکٹر کے پاس ہی لیجانا چاہیے۔

ڈاکٹر راٹھور نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے عوامی شعور میں اضافے کے بغیر چھوٹے بچوں کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی نہیں لائی جا سکتی اس کے لیے میڈیا کوبھی عوامی آگاہی کے لیئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

اس موقع پربچوں کے ہسپتال میں زیر علاج ایک چھوٹے بچے عبدالرحمن نے اپنی خواہش پرایک نظم بھی ڈوئچے ویلے کو سنائی، ماہرین کے مطابق چھوٹے بچوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے ان کی طبی دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں