1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چند خواتین نفرت آمیز سوشل میڈیا مہم کا شکار

بینش جاوید
2 اپریل 2019

چند پاکستانی خواتین کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں کچھ سماجی کارکنوں اور خواتین صحافیوں کو قتل اور ریپ کی دھکمیاں دی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3G6RF
Symmbolbild Facebook auf Smartphone
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Kachroo

اس بارے میں ڈوئچے ویلے سے  گفتگو کرتے ہوئے کالم نویس ماروی سرمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں مجھے سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مجھے یہ پیغامات ملنا شروع ہوئے کہ سوشل میڈیا پر مجھے قتل کرنے کی دھکمیاں دی جا رہی ہیں۔‘‘ ماروی سرمد نے کہا کہ اس سوشل میڈیا مہم پر ان پر شدید بد اخلاقی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ماروی سرمد نے کہا کہ اس نفرت آمیز مہم نے انہیں بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں گھر سے باہر نہیں جا سکتی، میرے گھر والے مجھے گھر سے نکلنے نہیں دے رہے، میں کام کے لیے گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی کیوں کہ کوئی بھی شخص آکر مجھ پر حملہ کر سکتا ہے۔‘‘

ماروی سرمد کو اس مہم کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے میڈیا میٹرز فار ڈیموکرسی کی شریک بانی صدف خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’حالیہ عورت مارچ ابھی بھی معاشرے کے چند حلقوں میں تازہ ہے۔ ماروی سرمد اور دیگر سرگرم کارکنوں پر اس لیے بھی تنقید کی جاتی ہے کیوں کہ وہ ایک ’اچھی با کردار خاتون‘ کے معاشرے کی طرف سے بنائے گئے خاکے پر پورا نہیں اترتیں لہذا وہ ایک آسان ہدف بن جاتی ہیں۔‘‘ صدف خان کہتی ہیں کہ  آٹھ مارچ کے بعد خواتین کے حقوق کے بارے میں جس طرح گفتگو کا آغاز ہوا ہے، اس کے مخالف ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صدف کہتی ہیں،’’ اب کچھ خواتین کو ہدف بنایا جارہا ہے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ خواتین مارچ کو تو دراصل ایسی خواتین کی حمایت حاصل ہے جو خود ’بد کرادار‘ ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ ماروی سرمد کے خلاف فیس بک پوسٹ کرنے والے ایک شخص محمد زادہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ میں تو روز بہت زیادہ مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہوں، کسی نے ایک واٹس ایپ گروپ  پر مجھے ان خاتون کے بارے میں کچھ بھیجا اور میں نے سوچے سمجھے بغیر اسے فیس بک پر پوسٹ کر دیا۔‘‘ ماروری سرمد کے بارے میں یہ پوسٹ اب محمد زادہ کے فیس بک اکاؤنٹ سے ڈیلیٹ کر دی گئی ہے۔ 

صحافی غریدہ فاروقی جو خود بھی شدید آن لائن ہراس کا شکار رہی ہیں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ پاکستان میں سوشل میڈیا کے قوانین تو ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ نوجوان بچے بچیوں کو سیاسی جماعتوں، ایجنسیوں یا گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا مہم چلانے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔‘‘

غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ وہ پہلی خاتون صحافی تھیں جو تین سال قبل ایف آئی اے کے پاس گئی تھیں۔  ان کے بقول سوشل میڈیا پر کئی ایسے پیجز تھے جس پران کے خلاف مہم جاری تھی۔ اب بھی ایف آئی اے غریدہ فاروقی کی شکایت پر آن لائن ہراسگی کے ایک کیس کی تحقییقات کر رہا ہے۔

فرازانہ علی پاکستانی نیوز چینل، آج نیوز کی پشاور کی بیورو چیف ہیں۔ وہ کافی عرصے سے خواتین کے موضوعات پر رپورٹننگ کر رہی ہیں۔ انہوں نے چند خواتین کے خلاف حالیہ سوشل میڈیا مہم پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ کئی ہفتوں سے مسلسل خواتین کو آن لائن ہراسگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عورت مارچ کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس معاملے پر رائے منقسم ہے۔ کچھ کی رائے میں خواتین کے احتجاج کا طریقہ مناسب نہ تھا اور کچھ پلے کارڈز بہت غیر مہذب تھے۔‘‘ تاہم فرازنہ کہتی ہیں کہ وہ  سمجھتی ہیں کہ وہ نعرے کچھ لوگوں کے لیے حد پار کرنے کے مترادف ضرور ہوں گے لیکن وہ بالکل بنیادی مسائل ہیں۔ اس خاتون صحافی کی رائے میں،’’ پلے کارڈز پر لکھے گئے الفاظ شاید بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہوں لیکن جب میں ان نعروں کو دیکھتی ہوں تو مجھے وہ تکلیف نظر آتی ہے جس سے خواتین گزری ہیں۔‘‘

خواتین کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنانے کے حوالے سے فرزانہ کہتی ہیں،’’ماضی میں عاصمہ شیرازی جیسی قابل صحافی کو مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف کے ایک انٹرویو کرنے پر، جو انٹرویو نواز شریف نے عاصمہ شیرازی سمیت دیگر صحافیوں کو بھی دیا تھا، ایک بد ترین آن لائن مہم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ غریدہ فاروقی اور اب ماروی سرمد کو بھی دھمکی آمیز پیغامات کا سامنا ہے۔‘‘ فرزانہ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ناموافق ماحول نے انہیں ٹوئٹر نہ استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

’خواتین نے پلے کارڈ اور سوشل میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘

’عورت مارچ‘ منتظمین کو ’قتل اور ریپ کی دھمکیاں‘

 واضح رہے کہ ابھی حال ہی میں بھارتی صحافی برکھا دت کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے معاملے پر ایکشن لیتے ہوئے چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں اب بھی سوشل میڈیا یا سائبر جرائم پر تیز رفتار کارروائی کی کمی نظر آتی ہے۔ عورت مارچ کی کئی منتظمین کو بھی قتل اور ریپ کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اس حوالے سے صدف خان کا کہنا ہے،’’ہمیں مشترکہ طورپر ان خواتین کے لیے آواز اٹھانا پڑے گی جو اس مہم کا نشانہ بن رہی ہے۔ ایف آے آئی اے پر بھی دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ جلد ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جو سوشل میڈیا پر چند خواتین کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور دوسروں کو بھی انہیں جان سے مارنے پر اکسا رہے ہیں۔‘‘