1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چھوٹے سے راکٹ مین‘ کے لیے لمبی ٹرین

عاطف توقیر
29 مارچ 2018

کم جونگ ان نے اپنے دورہء چین کو کامیاب قرار دیا ہے، جس میں کم نے چین کو اگلے ماہ جنوبی کوریا کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے شعبہ ایشیا کے سربراہ الیگزنڈر فروئنڈ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/2vBvv
China - Besuch von Kim Jong Un - Ankunft in Peking
تصویر: picture-alliance/AP/KCNA

اگر سب کچھ درست انداز سے آگے بڑھتا ہے، تو اگلے ماہ سے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا، جب کہ ممکنہ طور پر امریکا بھی ان مذاکرات کا حصہ بن سکتا ہے۔ کِم اب نہایت اعتماد سے ان مذاکرات کا آغاز کر سکتے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ چین ان کے ساتھ ہے۔ ان مذاکرات میں وہ برابری کی سطح سے بات کریں گے اور پابندیوں کی وجہ سے  مسائل کا شکار ہونے پر انہیں بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔

کیا ملالہ کو سوات بھی جانا چاہیے؟

کیا بھارت صحافیوں کے لیے محفوظ ملک ہے؟

گرل فرینڈ سے رشتہ کیسے توڑا جائے، جرمن پولیس کا مشورہ

جوہری پروگرام اور جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے عوض کِم کو امید ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکا خطے میں امن اور استحکام کا ایک ماحول پیدا کریں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کم اپنے اور اپنے قریبی حلقے کے لیے سکیورٹی کی ضمانت بھی طلب کریں گے اور جنوبی کوریا بھی اپنے ہتھیاروں میں کمی لائے گا۔

ایک ٹرین کے ذریعے کِم جونگ ان کا دورہ چین شمالی کوریا کے لیے نہایت ضروری تھا۔ کم کی جانب سے راکٹ اور ایٹم بموں کے تجربات نے اس ملک کی ’تحفظ کے لیے چینی طاقت‘ کے بیانیے پر سوالات اٹھائے تھے ایک طویل عرصے سے چین کوریائی خطے پر جاری اس تنازعے کے حل کے لیے چھ فریقی مذاکرات کی مہم چلاتا رہا ہے، تاہم وہ کامیاب نہیں ہوا۔ شمالی کوریا کی جانب سے جوہری اور میزائل تجربات کے تناظر میں بیجنگ نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شمالی کوریا پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی حمایت کی تھی اور اس سے ان روایتی حلیف ممالک کے تعلقات میں ایک کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔

Freund Alexander Kommentarbild App
الیگزنڈر فروئنڈ، سربراہ ڈی ڈبلیو ایشیا

کم کی جانب سے ان مذاکرات کے آغاز سے قبل چینی مدد اور تعاون کی طلبی، بیجنگ حکومت کی بھی کامیابی ہے، کیوں کہ جزیرہ نما کوریا کے تنازعے کا حل چین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس پورے معاملے میں خود کو فاتح قرار دے رہے ہیں، جن کہ کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں شمالی کوریا پر ان کی پالیسیوں کی وجہ سے شدید دباؤ پڑا ہے اور اسی تناظر میں پیونگ یانگ مذاکرات پر مجبور ہوا ہے۔ اگر پیونگ یانگ اور سیول کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے، تو ٹرمپ اپنے ناقدین کے خلاف اسے ایک مضبوط بیانیے کے طور پر پیش کر سکیں گے، خصوصاﹰ اگر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کو کسی ایسی ڈیل پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے، جسے وہ ایک ’کامیاب معاہدے‘ کے طور پر امریکی عوام کے سامنے پیش کر سکے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ کِم ڈی نیوکلرائزیشن آف کوریا یا کوریائی خطے میں جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا ایک مطلب جنوبی کوریا میں تعینات امریکی فوجیوں کے پاس موجود جوہری ہتھیار بھی لیتے ہیں، جن میں جوہری آبدوزوں کی خطے میں موجودگی بھی شامل ہے۔

دوسری جانب جنوبی کوریا کے صدر مون بھی کسی بڑی پیش رفت کی صورت میں خود کو عوام کے سامنے ایک فاتح کے طور پر ہی پیش کریں گے۔ کیوں کہ شمالی کوریا کی بابت ان کی پالیسیوں اور اعتماد سازی کے اقدامات شمالی کوریا کے رہنماؤں کو مذاکرات کی جانب لانے میں معاون رہے ہیں۔