1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

”چین کا سنکیانگ صوبہ ایک ’کھلی ہوئی جیل‘ ہے“، امریکا

13 مئی 2021

انسانی حقوق کے گروپوں اور امریکا، برطانیہ اور جرمنی کی قیادت میں مغربی ممالک نے چین پر ایغور اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جرا ئم کے الزامات عائد کیے ہیں لیکن بیجنگ نے اسے 'سیاسی اغراض‘ پر مبنی جھوٹ قرار دیا۔

https://p.dw.com/p/3tKrg
USA Demo für Menschenrechte der Uiguren in China
تصویر: Getty Images/AFP/O. Douliery

امریکا نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چین نے اپنے پورے مغربی سنکیانگ صوبے کو ایغور مسلمانوں کے لیے ایک'کھلی ہوئی جیل‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔

 امریکی وزارت خارجہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے متعلق دفتر کے ڈائریکٹر ڈینیل نیڈل نے بدھ کے روز رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت نے ”پورے خطے کو ایک کھلی ہوئی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔"  انہوں نے مزید کہا کہ یوں تو چین نے ایغوروں کی ”تربیت" اور ”جبری مزدوری" کے لیے پہلے ہی بڑی تعداد میں کیمپ قائم کر رکھے تھے لیکن اس نے اب جبر اور زیادتی کا دائرہ پورے صوبے تک وسیع کر دیا ہے۔

نیڈل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ”لوگوں کی نقل و حمل کی نگرانی کی جا رہی ہے۔لوگوں کو ایغوروں کے ساتھ رہنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ وہ ان پر ہر وقت نگاہ رکھ سکیں۔"

امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکا چینی حکومت کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم اور ایغور مسلمانوں نیز سنکیانگ میں دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں کی نسل کشی پر آنکھیں موند نہیں سکتا ہے۔

Tableau | Xinjiang - Baumwollanbau | Uighren | 25.03.2021
تصویر: Thomas Peter/File Photo/REUTERS

امریکی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں پہلے ہی کہا تھا کہ چین ایغوروں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

مذہبی آزادی سے متعلق امریکی وزارت خارجہ کی بدھ کے روز جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں ایران، میانمار، روس، نائجیریا اور سعودی عرب میں بھی مذہبی آزادیوں پر قدغن عائد کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

چین نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کی ہے۔چینی وزیر خارجہ وانگ وائی پہلے بھی اس طرح کے الزامات کو 'بہتان تراشی‘ کہتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں۔

وانگ وائی کا کہنا ہے کہ چین کے مغربی علاقے میں چوبیس ہزار مساجد ہیں اور سنکیانگ میں کبھی بھی نہ تو مبینہ نسل کشی ہوئی ہے اور نہ ہی مذہبی آزادیوں پر کوئی قدغن ہے اور نہ ہی لوگوں سے جبراً مزدوری کرائی جاتی ہے۔

لیکن ڈینیل نیڈل کا کہنا تھا کہ چین میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی دراصل ماضی میں تبت اور دیگر علاقوں میں بودھ مت کے ماننے والوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی ہی توسیع ہے۔ انہوں نے کہا،”آپ اسے بھی تبتی بودھوں سے لے کر فالون گانگ عقیدہ کے حامل مسیحیوں پر دہائیوں تک ہونے والی زیادتیوں کے سلسلے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔"

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکین نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین نے مذہبی آزادی کو جرم میں تبدیل کردیا ہے اور انسانیت کے خلاف مسلسل جرائم اور ایغور مسلمانوں نیز دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتی گروپوں کے خلاف نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

غیر ملکی حکومتوں اور محققین کے مطابق چین نے حالیہ برسوں میں سنکیانگ میں دس لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کو کیمپوں میں بند کر رکھا ہے۔ ان میں بیشتر نسلی اقلیتی ایغور مسلمان ہیں۔

دریں اثنا انسانی اقو ام متحدہ میں منعقدہ ایک میٹنگ میں حقوق کے گروپوں اور امریکا، برطانیہ اور جرمنی کی قیادت میں مغربی ممالک نے چینی حکومت پر ایغور اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جرا ئم کے الزامات عائد کیے ہیں۔

اقو ام متحدہ میں جرمن سفیر کرسٹوف ہیوس زین نے چین میں انسانی حقوق کے خلاف آواز بلند کرنے والے ملکوں اور تنظیموں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا،”جب تک ایغور دوبارہ آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے نہ لگیں، جب تک انہیں قیدوبند کرنے  کا خطرہ ختم نہ ہو جائے، جب تک ان سے جبراً مزدوری کا سلسلہ بند نہ ہو جائے اور جب تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روک نہ دی جائیں، جب تک وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے نہ لگیں اور انہیں اظہار رائے کی آزادی حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک ہمیں اپنی آواز بلند کرتے رہنا ہو گا۔"

 ج ا/ ص ز(ایسوسی ایٹیڈ پریس)

چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں