1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرسچین ڈیموکریٹس کی پہلی مسلم خاتون جرمن پارلیمان میں

مقبول ملک23 ستمبر 2013

جرمنی میں حالیہ عام انتخابات کے نتیجے میں جمیلے یوسف نامی جو مسلمان خاتون سیاستدان وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں میں پہنچی ہیں، وہ چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین CDU کی طرف سے بنڈس ٹاگ کی رکن بنی ہیں۔

https://p.dw.com/p/19mc9
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ پہلا موقع ہے کہ میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی صفوں سے کسی مسلمان خاتون سیاستدان کو وفاقی جرمن پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہوئی ہے۔

35 سالہ جمیلے یوسف ایک ایسی قدامت پسند سیاستدان ہیں جو جرمنی میں ترک نژاد آبادی سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ جرمنی کے مغرب میں واقع شہر ہاگن کے ایک وفاقی پارلیمانی حلقے سے براہ راست انتخاب کے لیے سی ڈی یو کی طرف سے امیدوار بھی تھیں لیکن براہ راست الیکشن کے عمل میں اس حلقے سے کامیابی جمیلے یوسف کے بجائے ان کے حریف امیدوار کے حصے میں آئی۔

اس ترک نژاد جرمن خاتون سیاستدان کا نام ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں پارٹی بنیادوں پر ملنے والے ووٹوں کے حوالے سے کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی انتخابی فہرست میں شامل تھا۔ وہ متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت اس جرمن صوبے سے سی ڈی یو کی طرف سے بنڈس ٹاگ کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔

جمیلے یوسف نے بائیس ستمبر کے عام انتخابات کے نتیجے میں اپنی کامیابی کے بعد جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے جرمن پارلیمان میں پہنچنے تک کا سفر بہت طویل ثابت ہوا لیکن یہ کامیابی ذاتی طور پر ان کے لیے ایک شاندار موقع بھی ہے۔

Aygül Özkan Niedersachsen Sozialministerin CDU Plenum
Aygül Özkan کو 2010ء میں ہینوور کی صوبائی کابینہ میں سماجی امور کی وزیر بنایا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی طرف سے ماضی میں کئی مسلمان سیاستدان مختلف صوبائی پارلیمانی اداروں کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ جمیلے یوسف کی پارٹی نامزدگی ایسا پہلا موقع تھا کہ انگیلا میرکل کی سی ڈی یو نے قومی سطح کے الیکشن میں کسی مسلمان خاتون کو اپنا انتخابی امیدوار بنایا تھا۔

مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اس قدامت پسند جماعت کی طرف سے جمیلے یوسف کی انتخابی نامزدگی اس لیے پورے ملک کی توجہ کا باعث بن گئی تھی کہ سی ڈی یو کی طرف سے بار بار اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مسیحیت جرمن طرز زندگی کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔

جمیلے یوسف کی نامزدگی کے بعد کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے انتخابی امیدواروں کا چناؤ کرنے والے پارٹی پلیٹ فارم نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ہم ایک ایسا یورپ چاہتے ہیں جو اپنی مسیحی اور مغربی جڑوں کی حفاظت کرے اور انہی کی مدد سے زندہ رہے۔‘‘

جرمن شہر لیورکوزن میں پیدا ہونے والی جمیلے یوسف کے والدین کا تعلق یونان میں آباد ترک نسلی اقلیت سے ہے اور انہیں جرمنی میں رہائش اختیار کیے قریب چار عشرے ہو چکے ہیں۔ جمیلے نے سیاسیات اور اسلامی علوم میں ایم اے کر رکھا ہے اور وہ کچھ عرصہ پہلے تک صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ایک سرکاری ملازم کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔

جمیلے نے بائیس ستمبر کے پارلیمانی الیکشن سے قبل ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’مذہبی لوگوں کے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، مفادات مشترکہ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی میں مسلمان اور مسیحی دونوں ہی چاہتے ہیں کہ اسکولوں میں ان کے مذاہب کی تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے۔‘‘

جرمنی میں ماضی کے مختلف ادوار میں وجود میں آنے والے بنڈس ٹاگ کے مختلف ایوانوں میں دوسری کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مسلمان ملکی پارلیمان کے رکن تو رہے ہیں تاہم کرسچین ڈیموکریٹک یونین اس سلسلے میں مسلمان آبادی تک رسائی میں ہچکچاہٹ سے کام لیتی رہی تھی۔

تین سال قبل 2010ء میں سی ڈی یو کی ہیمبرگ میں پیدا ہونے والی ترک نژاد خاتون سیاستدان Aygul Ozkan کو شمالی صوبے لوئر سیکسنی کی حکومت میں وزیر بھی بنا دیا گیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں