1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گرمی سے صحت کو لاحق خطرات کے لیے تیاریاں کریں، ڈبلیو ایچ او

امجد علی1 جولائی 2015

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی لہریں زیادہ تواتر اور زیادہ شدت کے ساتھ آ رہی ہیں اور حکومتوں کو چاہیے کہ ان خطرناک لہروں سے انسانوں کی صحت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔

https://p.dw.com/p/1FrAK
Pakistan Hitzewelle
کراچی میں فوج کا ایک ڈاکٹرشدید گرمی میں ایک بزرگ کے سر پر گیلا کپڑا رکھتے ہوئے اُسے راحت دینے کی کوشش کر رہا ہےتصویر: picture-alliance/AA/S. Mazhar

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ براعظم ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی گرمی کی جو حالیہ لہر دیکھی جا رہی ہے، اُس کے پیشِ نظر پہلی مرتبہ عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور موسمیات سے متعلق عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے مشترکہ طور پر ماہرین اور سرکاری حکام کے لیے رہنما اصول تیار کیے ہیں۔ اس مشترکہ سرگرمی کا مقصد اس سلسلے میں رہنمائی کرنا ہے کہ کیسے گرمی کی لہر کی وجہ سے انسانوں کی صحت کو درپیش خطرات کو کم سے کم رکھا جا سکتا ہے۔

ان عالمی تنظیموں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی عوامل کے نتیجے میں عمل میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیاں گرمی کی ان لہروں کا بنیادی سبب ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ گرم موسم زیادہ تواتر اور زیادہ شدت کے ساتھ دیکھنے میں آئیں گے۔ ایسے میں سب سے اہم تجویز یہ دی گئی ہے کہ گرمی کی لہر سے خبردار کرنے والے انتباہی نظام وضع کیے جانے چاہییں، جن میں لوگوں کو صحت کے حوالے سے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا گیا ہو اور بتایا گیا ہو کہ لوگوں کو خود کو تیز دھوپ کی صورت میں ہیٹ اسٹروک سے بچانے کے لیے کیا کیا کچھ کرنا چاہیے۔

ترقی یافتہ ملکوں جیسے کہ فرانس میں پہلے سے ایسے انتباہی نظام نصب ہیں۔ یہ نظام 2003ء کی شدید گرمی کی اُس لہر کے بعد نصب کیے گئے تھے، جس نے تب پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہزارہا انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اس سال بھی یورپ بھر میں معمول سے کہیں زیادہ گرم موسم دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) سے وابستہ سینیئر سائنسدان ڈائرمِڈ کیمبل لینڈرم نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ایسے انتباہی نظام عام نہیں ہیں۔ جنوبی پاکستان میں شدید گرمی، تیز دھوپ، درجہٴ حرارت میں نظر آنے والے بے پناہ اضافے اور حبس کے سبب صرف کراچی شہر ہی میں بارہ سو سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

کراچی میں اتنے بڑے پیمانے پر اموات سے ایک ہی مہینہ پہلے ہمسایہ ملک بھارت میں گرمی کی ہولناک لہر نے دو ہزار سے زیادہ انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گُل کر دیے تھے۔

اگرچہ ڈاکٹر ڈائرمِڈ کیمبل لینڈرم کے مطابق موسم کا حال بتانا اور درجہٴ حرارت سے متعلق معلومات دینا تو اب ہر جگہ ایک معمول بن چکا ہے لیکن لوگوں کو یہ بات عموماً نہیں بتائی جاتی کہ گرمی کی لہر اُن کی صحت کے لیے کس کس طرح سے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں عالمی تنظیموں کے وضع کردہ رہنما اصولوں کا مقصد گرمی کے حوالے سے پیشگی انتباہی نظام وضع کرنے کے سلسلے میں مختلف ملکوں کی معاونت کرنا ہے۔

Hitzewelle Waldbrand Brandbekämpfung Wetter Europas Griechenland Nea Makri
2003ء میں پورا یورپ گرمی کی ایک شدید لہر کی لپیٹ میں آیا تھا، ہزارہا انسان ہلاک ہو گئے تھے، اسپین اور یونان کے جنگلات میں بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی تھیتصویر: AP

ان رہنما اصولوں میں تمام ممالک کی حکومتوں پر ایسے نظام وضع کرنے کے لیے زور دیا گیا ہے، جن کی موجودگی میں شہریوں کو گرمی کی لہر کی صورت میں جلد از جلد تمام تر ممکنہ خطرات سے خبردار کیا جا سکے اور ہسپتالوں میں پہلے سے ایمرجنسی نافذ کی جا سکے تاکہ وہ خود کو ہِیٹ اسٹروک کے مریضوں کے ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیار کر سکیں۔

سائنسدان خبردار کر رہے ہیں کہ آگے چل کر گرمی کی لہریں ایسے خطّوں میں بھی دیکھنے میں آ سکتی ہیں، جہاں عموماً ایسا شدید موسم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ دیہات کی نسبت شہروں میں عموماً زیادہ گرمی ہوتی ہے، جہاں شدید گرمی کی لہر بوڑھے یا پہلے سے بیمار افراد کے لیے موت کی پیام بر ثابت ہو سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید