1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیا نے بھی یورپی یونین کی رکنیت کی درخواست پیش کر دی

امجد علی15 فروری 2016

بوسنیا نے پیر کے روز یورپی یونین کی رکنیت کے لیے اپنی درخواست جمع کروا دی ہے۔ اس طرح بوسنیا بھی اپنے ہمسایہ ممالک ہی کی طرح یورپی یونین کی جانب جانے والے راستے پر گامزن ہو جانے کی امید کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hvhi
Belgien Bosnien-Herzegowina reicht Antrag auf EU-Beitritt ein
بوسنیا کے صدر دراگان چووِچ (بائیں) نے یہ درخواست برسلز میں ہالینڈ کے خارجہ امور کے وزیر بیرٹ کوئنڈرز (درمیان میں) کے حوالے کیتصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بوسنیا کے صدر دراگان چووِچ نے یہ درخواست آج برسلز میں ہالینڈ کے خارجہ امور کے وزیر بیرٹ کوئنڈرز کے حوالے کی۔ واضح رہے کہ آج کل ہالینڈ یورپی یونین کی صدارت کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔

اس موقع پر چووِچ نے کہا:’’بوسنیا ہیرسیگووینا کے لیے واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہے، ہمیں اپنے ہمسایوں کے پیچھے پیچھے آگے بڑھنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اُن کا ملک ضروری اصلاحات کے عمل کو تیز تر کرنا چاہتا ہے، اس توقع میں کہ یورپی یونین 2017ء میں بوسنیا ہیرسیگووینا کو امیدوار کا تشخص دے دے گا۔

بوسنیا نے سب سے پہلے 2008ء میں یورپی یونین کے دروازوں پر دستک دی تھی، جب اُس نے یونین کے ساتھ استحکام اور شراکت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تب تک اس ملک میں اُس خونریز تنازعے کو ختم ہوئےتیرہ سال بیت چکے تھے، جس کے نتیجے میں یہ ملک نسلی خطوط پر تقسیم ہو گیا تھا۔ اس جنگ ہی کے وقت سے چلے آ رہے بہت سے تنازعات کے سبب ضروری اصلاحات کے عمل میں بار بار رکاوٹ پیدا ہوتی رہی ہے۔ بوسنی سربوں کو یہ ڈر رہا ہے کہ وہ بوسنیا کے اندر اپنی خود مختاری کھو دیں گے۔ سربوں کے اس رویے سے بوسنیا کے مسلمان اور کروآٹ پریشان بھی ہوئے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ یہی رویہ بوسنیا میں ایسی ضروری اصلاحات متعارف کروانے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے، جن کے نتیجے میں بیرونی سرمایہ کاروں کو بوسنیا کی جانب راغب کیا جا سکتا تھا اور معیشت کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا تھا۔

اسی سیاسی تعطل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح چالیس فیصد سے تجاوز کر گئی ہے اور ملکی عوام میں مایوسی پھیل چکی ہے۔ ہر سال ہزارہا شہری ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

بوسنیا ہیرسیگووینا کی مجموعی آبادی 3.8 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ سن 2014ء میں اڑسٹھ ہزار شہری ملک چھوڑ کر چلے گئے، جن میں سے زیادہ تر کی عمریں پچیس اور چالیس سال کے درمیان تھیں۔ 2015ء کے لیے اس تعداد میں بیس تا تیس فیصد اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ ایک رکنِ پارلیمان سیناڈ سیپِچ نے اے پی کو بتایا، ’وہی لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، جنہوں نے اسے تعمیر کرنا تھا‘۔

Sanda Serdarevic Goethe Institut Sarajevo
بوسنیا کے دارالحکومت ساراژیوو کے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں جرمن زبان سیکھنے کے لیے داخلے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہےتصویر: DW/S. Huseinovic

ادھر جرمنی کو ہر سال طب کے شعبے میں چالیس ہزار ورکرز کی ضرورت پڑ رہی ہے اور گزشتہ دو برسوں کے دوران بوسنیا کے دارالحکومت ساراژیوو کے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں جرمن زبان سیکھنے کے لیے داخلے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ رجحان مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

یہاں جرمن زبان سیکھنے میں مصروف ایک بیس سالہ نوجوان عامر سیکچ نے، جو سیاسیات کا طالب علم ہے، بتایا کہ وہ اس لیے یہ زبان سیکھ رہا ہے تاکہ جرمنی میں کوئی ملازمت حاصل کر سکے:’’مجھے لگتا ہے کہ میرا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید