بن لادن کے اہل خانہ پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
26 مارچ 2012دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ کے کنبے کے ارکان گزشتہ سال مئی سے پاکستان میں زیر حراست ہیں، جب امریکی کمانڈوز نے شمال مغربی پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ان کی رہائش گاہ پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔
پاکستان نے اِس واقعے پر زبردست غم و غصے کا اظہار کیا تھا کیونکہ حکومتِ پاکستان کو اِس حملے کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ اُنہیں القاعدہ کے سربراہ کے پاکستان میں رہائش پذیر ہونے کا علم نہیں تھا اور یہ کہ امریکی بھی ایسے کوئی شواہد پیش نہیں کر سکے کہ پاکستانی حکام بن لادن کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی سے با خبر تھے۔
بن لادن کے اہل خانہ کے وکیل محمد عامر نے بتایا کہ ایک پاکستانی عدالت دو اپریل کو دوبارہ سماعت شروع ہونے پر بن لادن کی تین بیواؤں اور دو بیٹیوں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ محمد عامر کے مطابق عدالت نے پیر چھبیس مارچ کو مقدمے اور شواہد کی نقول اِن پانچوں خواتین کے حوالے کر دیں۔
پاکستانی ماہرین قانون کے مطابق ان خواتین کو زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔ القاعدہ کا سربراہ اپنی ان بیویوں، آٹھ بچوں اور تین ملازمین کے ساتھ ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر تھا۔
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک کہہ چکے ہیں کہ بن لادن کے بچے اس مقدمے کا حصہ نہیں ہیں اور وہ چاہیں تو پاکستان چھوڑ کر جا بھی سکتے ہیں یا پھر مقدمے کی سماعت کے دوران اپنی ماؤں کے ساتھ بھی رہ سکتے ہیں۔
اب تک منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق بن لادن کی ایک بیوی کا تعلق یمن سے ہے اور دوسری کا سعودی عرب سے۔ تیسری کی شہریت کے بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں ہو سکا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ان میں سے ایک کے رشتے دار نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور حکام پر زور دیا تھا کہ وہ بن لادن کے اہل خانہ کو ملک سے جانے کی اجازت دے دیں تاہم اُس کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی