1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سڑکوں پر نماز پڑھنا نازی قبضے جیسا‘: فرانس میں مقدمہ شروع

مقبول ملک20 اکتوبر 2015

فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پسند جماعت نیشنل فرنٹ کی خاتون رہنما مارین لے پین کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا ’سڑکوں پر نماز پڑھنا نازیوں کے قبضے جیسا‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gr3f
Frankreich, Gebet auf der Straße
تصویر: Getty Images/AFP/M. Medina

فرانس کے شہر لیوں Lyon سے منگل بیس اکتوبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران فرانس میں کافی مقبولیت حاصل کرنے والی اور غیر ملکیوں کے خلاف قوم پسندانہ سوچ کو ہوا دینے والی جماعت نیشنل فرنٹ کی اس رہنما کو ’نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کی کوشش‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔

مارین لے پین کی عمر اس وقت 47 برس ہے اور انہوں نے پچھلے چند مہینوں کے دوران اپنی جماعت کی ساکھ کو بہتر اور اپنی پارٹی کے موقف کو کچھ نرم بنانے کی کوشش کرتے ہوئے متعدد انتخابی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ مارین لے پین آج منگل کے روز لیوں کی ایک عدالت میں پیش ہوئیں، جہاں ان کو اپنے خلاف ان بیانات کے حوالے سے قانونی الزامات کا سامنا ہے، جو انہوں نے پانچ سال قبل اپنے والد سے اپنی پارٹی کی قیادت کے حصول کی کوششوں کے دوران جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے دیے تھے۔

لیوں کی عدالت میں داخل ہونے سے پہلے مارین لے پین نے کہا، ’’میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔‘‘ اگر انہیں ان الزامات میں مجرم قرار دے دیا گیا تو انہیں ایک سال تک قید کے علاوہ قریب 45 ہزار یورو تک جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس فرانسیسی خاتون سیاستدان نے دسمبر 2010ء میں ایک سیاسی مہم کے دوران اس بارے میں شکایت کی تھی کہ فرانس میں مسلمان جب نماز پڑھنے جاتے ہیں تو مسجدیں بھری ہونے کی صورت میں وہ باہر سڑکوں پر نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

تب پانچ برس قبل اسی شہر میں انہوں نے کہا تھا، ’’ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو دوسری عالمی جنگ کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان جو سڑکوں پر نماز پڑھتے ہیں، ان کی یہ حرکت بھی قبضہ کر لینے کے مترادف ہے۔ یہ فرانسیسی علاقوں اور ان کے مضافات کے ایک حصے پر قبضہ ہے۔ اس قبضے میں نہ تو کوئی بکتر بند گاڑیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی کوئی فوجی، پھر بھی یہ ایک قبضہ ہے، جس کا اثر علاقے کے مکینوں پر پڑتا ہے۔‘‘

Frankreich Marine Le Pen Prozess wegen Volksverhetzung
مارین لے پین کی آج لیوں کی عدالت میں آمد کے موقع پر لی گئی تصویرتصویر: Getty Images/AFP/J.-P. Ksiazek

مارین لے پین کے ان بیانات پر پورے فرانس میں شدید غصےکا اظہار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف چھان بین بھی کی گئی تھی۔ لیکن پھر بغیر کسی کارروائی کے یہ تفتیش بند کر دی گئی تھی۔ بعد میں جنوری 2012ء میں ایک فرانسیسی تنظیم نے نئے سرے سے مارین لے پین کے ان بیانات کی عدالتی چھان بین کی درخواست دائر کر دی تھی۔

مارین لے پین یورپی پارلیمان کی رکن بھی ہیں۔ لیکن اس پیش رفت کے بعد فرانسیسی حکام کی درخواست پر یورپی پارلیمان نے انہیں کسی بھی قانونی کارروائی کے خلاف حاصل مامونیت ختم کر دینے کا فیصلہ کیا تھا اور جولائی 2014ء میں ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔

اب اپنے والد کے خلاف سیاسی بغاوت کر کے نیشنل فرنٹ کی قیادت سنبھالنے والی مارین لے پین کو آج سے اپنے خلاف جس عدالتی کارروائی کا سامنا ہے، اس میں انہیں ’مذہبی بنیادوں پر ایک مخصوص سماجی گروپ کے خلاف امتیازی رویوں، تشدد اور نفرت پر اکسانے‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔

اس مقدمے کے بارے میں فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم فرنچ مسلم کونسل کے سیکرٹری جنرل عبداللہ ذکری نے کہا، ’’سیاستدانوں کی طرف سے دیے جانے والے یہی وہ بیانات ہیں، جو اسلام سے خوف یا ’اسلاموفوبیا‘ کی اس فضا کو تقویت دیتے ہیں، جس میں ہم آج کل اس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید