1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر میرکل اچانک دورے پر افغانستان میں

12 مارچ 2012

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے افغانستان کے ایک غیر متوقع دورے کے موقع پر مزارِ شریف میں جرمن فوج کے ایک کیمپ کا دورہ کیا اور افغانستان میں اب تک مرنے والے 52 فوجیوں کی یاد تازہ کی۔

https://p.dw.com/p/14JEU
تصویر: dapd

میرکل کا جرمن چانسلر کے طور پر افغانستان کا یہ چوتھا دورہ ہے، جو ایک انتہائی نازک مرحلے پر عمل میں آ رہا ہے۔ سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ عمل میں آنے والے اسی دورے کے دوران جنوبی افغانستان میں ایک امریکی فوجی نے اندھا دھند فائرنگ کر کے سولہ نہتے افغان شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مزارِ شریف سے ٹیلی فون پر افغان صدر حامد کرزئی سے اِس واقعے پر ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ نیٹو کی قیادت میں سرگرم ایساف دستہ اس ہولناک واردات کا سارا پس منظر سامنے لانے کی کوشش کرے گا۔ میرکل نے اعلان کیا کہ اِسی مارچ کے مہینے میں جرمنی اُس معاہدے کا مسودہ پیش کر دے گا، جس میں نیٹو کا مشن ختم ہونے کے بعد کے دور میں افغانستان کے ساتھ شراکت کی تفصیلات شامل ہوں گی۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل پیر بارہ مارچ کو مزارِ شریف میں جرمن فوجی افسران کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر
جرمن چانسلر انگیلا میرکل پیر بارہ مارچ کو مزارِ شریف میں جرمن فوجی افسران کے ساتھ دوپہر کے کھانے پرتصویر: dapd

مزار شریف میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے میرکل نے افغانستان سے 2014ء میں نیٹو کے جنگی دستوں کے انخلاء کے بارے میں شک و شبے کا بھی اظہار کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ابھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ افغانستان سے دستے واپس بلائے جا سکیں۔ اُنہوں نے کہا:’’مَیں ابھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم 2013/14 تک ایسے حالات پیدا کر سکیں گے کہ انخلاء عمل میں لایا جا سکے۔ ہم البتہ ایسا کرنے کا عزم ضرور رکھتے ہیں اور اس پر کام ہو رہا ہے۔‘‘

میرکل بحران زدہ جنوبی صوبے قندھار میں واقع جرمن فوجی کیمپ میں بی جانا چاہتی تھیں تاہم شدید برف باری کے سبب یہ ممکن نہ ہو سکا۔ 2005ء میں چانسلر بننے کے بعد سے میرکل کا افغانستان کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ آخری بار وہ 2010ء میں افغانستان گئی تھیں۔

بگرام کے فوجی اڈے پر غیر ملکی فوجیوں نے غلطی سے قرآن مجید کے نسخے جلا ڈالے تھے اور وفاقی جرمن فوج کے زیر نگرانی علاقوں میں مشتعل افغان شہری کئی روز سے قرآن سوزی کے اِس واقعے کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ میرکل کے دورے ہی کے موقع پر جنوبی افغانستان میں سولہ بے گناہ افغان شہری ایک جنونی امریکی فوجی کے ہاتھوں مارے گئے۔ گزشتہ شام قندھار میں اُس امریکی فوجی اڈے کی فضاؤں میں ہیلی کاپٹر گردش کر رہے تھے، جہاں سے تعلق رکھنے والے امریکی فوجی نے اندھا دھند فائرنگ کر کے سولہ افغانوں کو ہلاک کیا۔

ایک افغان فوجی قندھار میں سولہ بے گناہ افغان شہریوں کی ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد مشتعل افغانوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے
ایک افغان فوجی قندھار میں سولہ بے گناہ افغان شہریوں کی ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد مشتعل افغانوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےتصویر: dapd

یہ فوجی سورج نکلنے سے پہلے رات کے اندھیرے میں اڈے سے نکلا اور ایک ایک کر کے مختلف گھروں میں گھس کر اُس نے افغانوں کو ہلاک کیا۔ مرنے والوں میں تین خواتین اور نو بچے بھی شامل ہیں۔ اِس واقعے پر امریکی فوج کو افغانوں کی جانب سے کسی جوابی کارروائی کا خدشہ ہے۔ کابل میں امریکی سفیر جیمز کننگھم نے اِس واقعے پر معذرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ہمیں بے گناہ شہریوں پر امریکی سکیورٹی فورسز کے کسی بھی رکن کے حملے پر افسوس ہے۔ ہم شہری آبادی کے خلاف کسی بھی طرح سے طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم ا فغانستان کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اس ہولناک واقعے کے ذمہ دار شخص یا اَشخاص کا سراغ لگا کر اُنہیں سزا دی جائے گی۔‘‘

امریکی صدر باراک اوباما نے بھی افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ایک ٹیلی فون گفتگو میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جنونی امریکی فوجی نے یہ کارروائی کیوں کی، یہ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ ذرائع ا بلاغ کا کہنا ہے کہ یہ فوجی کچھ عرصہ قبل اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ کابل کے ایک شہری کا کہنا تھا:’’اِس واقعے کے بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اِس سے لوگوں کو نئے سرے سے غیر ملکی دستوں کے خلاف ا ٹھ کھڑا ہونے اور اُن کے خلاف احتجاج کرنے کی ترغیب ملے گی۔‘‘

رپورٹ: کائی کیوسٹنر (نئی دہلی) / امجد علی

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید