1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں آئندہ الیکشن آزادانہ اور منصفانہ ہوسکیں گے؟

1 دسمبر 2023

آئندہ برس فروری میں پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں لیکن جیل میں موجود سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن نے انتخابات کی ساکھ پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Zf49
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں مزید تاخیر وزیر اعظم کاکڑ کی حکومت کو مزید غیر مقبول بنا سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں مزید تاخیر وزیر اعظم کاکڑ کی حکومت کو مزید غیر مقبول بنا سکتی ہے۔تصویر: PPI/Zumapress/picture alliance

رواں برس اگست میں پاکستان کے نگران وزیر اعظم بننے والے انوار الحق کاکڑ  کو یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد نوے دن کے اندر اندر عام انتخابات کروانے تھے لیکن  حکومت کی طرف سے سکیورٹی خدشات اور خستہ معاشی صورتحال جیسی تاویلیں پیش کی گئیں اور ان کے سبب الیکشن کی حتمی تاریخ میں مسلسل تاخیر ہوتی گئی۔ بہر کیف آٹھ فروری 2024ء کو ملک میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں لیکن اس ڈیڈلائن کو پورا کرنے میں بھی کئی چیلنجز موجود ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان  بدعنوانی اور  دیگر مقدمات کے نتیجے میں کئی مہینوں سے جیل میں قید ہیں۔ اسی طرح ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کئی اعلیٰ عہدیدار بھی عدالتوں اور جیلوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اس وجہ سے انتخابات کی شفافیت کے معاملے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوران شدید اقتصادی بحران سے بھی دوچار ہے۔

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟

اس غیر یقینی صورتحال میں عبوری حکومت ملک کو متعدد بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ آئینی طور پر اس کا واحد کام عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ وزیر اعظم کاکڑ نے اس ماہ کے شروع میں کہا، "ہم معیشت، نجکاری اور کنیکٹیویٹی سمیت کئی شعبوں میں سخت چیلنجز سے نمٹے رہے ہیں۔"

مئی میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے پر اپنی پارٹی اور حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود معزول وزیراعظم عمران خان ملک کے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت عبوری حکومت کی ناقد ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں مزید تاخیر  کاکڑ کے بلاک کو مزید غیر مقبول بنا سکتی ہے۔

طاقتور لیکن متنازعہ

سیاسی تجزیہ کار اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "نگران حکومت کا واحد کام انتخابات کی نگرانی کرنا ہے لیکن کئی طریقوں سے، اس نے اپنے آئینی کردار سے ہٹ کر کام کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت آئینی طور پر ضروری معاملات کے علاوہ اہم پالیسی فیصلے کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات نے نگران حکومت کو "متنازعہ" بنا دیا ہے۔

لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ملک ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، اور انہیں انتخابات کے انعقاد سے قبل بہت سے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ عمران خان کی حکومت کو زوال پذیر معیشت اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ طاقتور فوج کے ساتھ سویلین اداروں کے تصادم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

میری پارٹی کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن جاری ہے، عمران خان

فوجی قیادت، جو عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی سے متصادم ہے، غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن یہ بھی اصرار کرتی ہے کہ وہ ملک میں مزید عدم استحکام کی اجازت نہیں دے گی۔

اسلام آباد میں مقیم سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "وہ [عبوری حکومت] پچھلی حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ اسی لیے وہ بہت سے مالیاتی فیصلے لے رہی ہے۔"

عمران خان آئندہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے؟

بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کو الیکشن میں حصہ لینے دیا گیا تو وہ اگلی پارلیمنٹ میں آسانی سے اکثریت حاصل کر لیں گے۔ لیکن فروری کے انتخابات  میں عمران خان کی شرکت نا ممکن دکھائی دیتی ہے۔

عمران خان کو اپریل 2022ء میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول کر دیا گیا تھا۔ وہ عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں پانچ اگست 2023ء کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

جب خان کو اس سال پہلی مرتبہ 9 مئی 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا، تو ان کے حامی احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے، مبینہ طور پر انہوں نے عوامی املاک اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ اس عمل نے سابق وزیر اعظم کو موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ براہ راست تصادم میں ڈال دیا۔

عمران خان کے بین الاقوامی میڈیا اور امور کے مشیر ذوالفقار بخاری نے لندن سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتخابات سے قبل سب سے بڑی سیاسی جماعت پر پابندیاں 'پری پول دھاندلی' کے مترادف ہے۔ "ظاہر ہے کہ انتخابات منصفانہ نہیں ہوں گے۔"

بخاری کو خدشہ ہے کہ نگران حکومت اپنی پسند کے انتخابی نتائج کو یقینی بنانے کے لیے دسمبر اور جنوری میں پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کرے گی۔ اسی حوالے سے صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا، "پی ٹی آئی کے لیے سیاسی جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان [پی ٹی آئی عہدیداروں اور حامیوں] کو رہا کرے جو نو مئی کے حملوں میں ملوث نہیں تھے، یا انہیں منصفانہ ٹرائل کا حق دیا جانا چاہیے۔"

غیر منصفانہ انتخابات کی شکایات

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کا انحصار عبوری حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی بجائے منصفانہ انتخابات پر ہے۔

سیاسی تجزیہ کار ملیحہ لودھی نے اس بات پر زور دیا  کہ انتخابات میں تمام فریقین کی عدم شمولیت اور ساکھ کا فقدان سیاسی بحران کو جنم دے سکتے ہیں اور پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ ان کے  بقول، "نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔"

نواز شریف کی واپسی، پاکستان کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور؟

ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ  پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں  میں سے دو کی طرف سے یہ دعوے کیے جانا کہ آنے والے انتخابات میں برابری کے میدان کا فقدان ہے، "ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔"

پی ٹی آئی کے عہدیدار زلفی بخاری بھی ملیحہ لودھی کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نگران حکومت کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "ہمیں صوبہ پنجاب میں عوامی جلسے کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور ہمارے رہنماؤں کو عوام کے سامنے آنےکی اجازت نہیں ہے۔"

دریں اثناء اطلاعات و نشریات کے موجودہ وزیر مرتضیٰ سولنگی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پری پول دھاندلی کے الزامات بے بنیاد اور قبل از وقت ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کاکڑ کی حکومت کو یہ تاثر ختم کرنا چاہیے کہ عبوری حکومت عمران خان کو کسی بھی طریقے سے اقتدار سے دور رکھنا چاہتی ہے۔

ہارون جنجوعہ / ع آ / ک م

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں