1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی نیوی کے پانچ افسران کو سزائے موت

عبدالستار، اسلام آباد24 مئی 2016

بحری فوج کے ایک ٹریبونل نے اپنے پانچ افسران کو کراچی میں نیول ڈاکیارڈ پرحملے کے الزام میں سزائے موت دے دی ہے۔ سزا یافتہ افسران پر بغاوت، سازش، داعش سے تعلقات رکھنے اور ہتھیار لے کر ڈاکیارڈ میں داخل ہونے کا الزام تھا۔

https://p.dw.com/p/1ItVp
Internationale Manöver im Arabischen Meer
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

ڈاکیارڈ پر یہ حملہ ستمبر 2014 میں کیا گیا تھا۔ اس وقت ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آور پی این ایس ذوالفقار نامی جنگی جہاز کو ہائی جیک کر کے ایندھن بھرنے والے ایک امریکی جہاز کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ تاہم نیوی حکام نے اس حملے کو ناکام بنا کر دو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا اور چار کو گرفتارکرلیا گیا تھا۔

ہلاک ہونے والا ایک دہشت گرد سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا بیٹا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آئے تھے۔ ٹی ٹی پی اور القاعدہ برصغیر نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے میجر ریٹائرڈ سعید نے کہا، ’’میرے بیٹے کو ستمبر دو ہزار چودہ میں حراست میں لیا گیا تھا اور مجھے اس سزا کا علم حال ہی میں ہوا۔ میں اپنے بیٹے سب لیفٹینیٹ حماد احمد اور اس کے چار ساتھیوں عرفان اللہ، محمد حماد، ارسلان نذیر اور ہاشم نصیرسے کراچی سینڑل جیل میں حال ہی ملا۔ میرے بیٹے نے بتایا کہ اسے اور اس کے چار ساتھیوں کو نیوی ٹریبونل نے خٖفیہ سماعت کے بعد سزائے موت دی ہے۔ ‘‘

ایک سوال کے جواب میں سعید نے کہا، ’’میں نے نیوی کے ایڈووکیٹ جنرل کو پندرہ اگست دو ہزار پندرہ میں ایک خط لکھا تھا، جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ میرے بیٹے کو وکیل صفائی کی خدمات لینے کی اجازت دی جائے۔ مجھے اکیس ستمبر کو جواب دیا گیا کہ مقدمے کے وقت اجازت دی جائے گی۔ میں مقدمے کے شروع ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ کسی نے مجھے حال ہی میں بتایا کہ میرے بیٹے کو کراچی سینڑل جیل منتقل کردیا گیا ہے۔سعید نے کہا کہ وہ سزا کے خلاف نیول کورٹ آف اپیل میں درخواست دائر کریں گے۔‘‘

حماد احمد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ اس فیصلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ آرمی ایکٹ میں بھی ڈیفنس کونسل کی اجازت ہے۔ ابھی تک نہ یہ پتہ ہے کہ ان کے خلاف کیا الزامات تھے اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ انہیں کس جرم میں سزا دی گئی ہے۔‘‘

سعید کے بقول، ’’ ہمارے پاس ابھی تک عدالتی فیصلے کی کاپی بھی نہیں ہے اور نہ ہی انہوں (نیوی کورٹ) نے کوئی کاپی دی ہے۔ اب ہمارے پاس اپیل کے لیے ساٹھ دن ہیں۔ یہ ساٹھ دن فیصلے دیے جانے والے دن سے گنے جائیں گے۔ پہلے ہم نیوی کورٹ آف اپیل میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے اور اگر وہاں کامیاب نہیں ہوئے تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کٹھکھٹائیں گے۔ ‘‘

Pakistan Angriff auf Marinestützpunkt NO FLASH
ڈاکیارڈ پر یہ حملہ ستمبر 2014 میں کیا گیا تھا۔تصویر: picture alliance/dpa

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ ہمارے پاس اب تک جو بھی معلومات ہیں وہ زبانی ہیں۔ حماد احمد کے والد اس سے جیل میں ملے تھے اور اس نے انہیں یہ بتایا ہے کہ اسے اور چار ساتھیوں کو سزا دی گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سزا جنرل کورٹ مارشل نے دی ہے اور نیوی کے چیف نے اس کی توثیق بھی کردی ہے۔ اس کنفرمیشن کے بعد کوئی آفیسر جو بریگیڈئر یا میجر جنرل کے لیول کا ہوتا ہے ، اس سزا کے خلاف کیسے فیصلہ دے سکتا ہے۔‘‘

انعام الرحیم نے کہا یہ تو اچھا ہوا کہ حماد کے والد کو پتہ چل گیا ورنہ ان کی اپیل کا وقت بھی گزر جاتا، ’’اس طرح کے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جارہے، اسی لیے سپریم کورٹ نے کچھ پھانسیوں پر عمل درآمد روکا ہوا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں